Topics
جواب:
سائنس کی موجودہ جتنی بھی ترقی اب تک سامنے آ چکی ہے۔ جب ہم اس کے افادی پہلوؤں پر
نظر ڈالتے ہیں تو ہمارے سامنے یہ بات آتی ہے کہ نوعِ انسانی کی فلاح و بہود کے
پردے میں اس ترقی کا ماحصل دنیاوی لالچ ہے۔ جتنی بھی سائنس نے ترقی کی اس ترقی سے
نوعِ انسانی مستفیض ہوئی ہے لیکن جن لوگوں نے یہ ایجادات کیں ان کے پیش نظر مالی
اور دنیوی منفعت رہی۔ ہم طرزِ فکر کے بارے میں بہت واضح طور پر یہ بیان کر چکے ہیں
کہ دنیا میں جو کچھ موجود ہے اس کا تعلق براہِ راست طرزِ فکر سے ہے۔
ایک
طرزِ فکر ہے جس کا تعلق براہِ راست اللہ تعالیٰ کی ذات سے ہے… اور
ایک
طرزِ فکر وہ ہے جس طرزِ فکر کا رابطہ اللہ تعالیٰ سے قائم نہیں ہے۔
اللہ
تعالیٰ کی طرزِ فکر کا مشاہدہ ہر آن اور ہر گھڑی ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خود بھی
قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ہے کہ ’’ہماری نشانیوں پر غور و تفکر کرو اور عاقل بالغ
باشعور اور سمجھ دار اور فہیم لوگ وہ ہیں جو ہماری نشانیوں پر غور کرتے ہیں۔‘‘
اللہ
تعالیٰ کی نشانیوں میں ظاہر حواس سے دیکھی جانے والی نشانیاں جن سے ہم ہر وقت
مستفیض ہوتے رہتے ہیں وہ یہ ہیں… ہَوا، پانی، دھوپ، رنگ، زمین کی نشوونما اور نئی
نئی چیزیں تخلیق کرنے کی صلاحیت۔ اللہ تعالیٰ نے اس کوکھ سے ایسی ایسی چیزیں پیدا
کیں جن چیزوں پر نہ صرف یہ کہ نوعِ انسانی بلکہ زمین کے اوپر جتنی بھی مخلوق موجود
ہے اس کی زندگی کا دارومدار ہے۔ ہَوا ایک ایسی نشانی ہے کہ جس سے زمین پر رہنے
والا ایک متنفّس بھی محروم نہیں ہے۔ پانی ایک ایسی نشانی ہے جو انسان کی زندگی کو
فیڈFeedنہ کرے تو زندگی ختم ہو
جائے گی۔ نہ صرف یہ کہ انسانی زندگی ختم ہو جائے گی، پورا سیارہ زندگی سے محروم ہو
جائے گا۔ یہی حال دھوپ کا ہے۔ یہی حال چاندنی کا ہے۔ یہی حال درختوں کے سرسبز و
شاداب ہونے کا ہے اور یہی حال رنگ برنگے پھولوں کا ہے۔ یہ ساری چیزیں براہِ راست
اللہ تعالیٰ کی تخلیق کردہ ہیں۔
ان
تخلیقات پر جب تفکر کیا جاتا ہے تو بجز اس کے کوئی بات سامنے نہیں آتی کہ ان تمام
تخلیقات سے اللہ تعالیٰ کا منشاء اور مقصد یہ ہے کہ نوعِ انسانی کو فائدہ پہنچے۔
ایسا فائدہ کہ جس فائدہ کے پیچھے کوئی غرض، کوئی صلہ، کوئی مقصد، کوئی لین دین اور
کوئی کاروبار نہیں ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ تمام چیزیں اس لئے
پیدا کی ہیں کہ بندے اللہ کی حاکمیت کو تسلیم کرتے ہوئے اس کی عبادت کریں تو پھر
ہم یہ کیسے تسلیم کریں گے کہ جو لوگ اللہ کی ذات و صفات کا انکار کرتے ہیں اور
برملا کفر کی زندگی بسر کر رہے ہیں، ہَوا ان کو بھی زندگی دے رہی ہے، پانی سے وہ
بھی سیراب ہو رہے ہیں۔ دھوپ میں جو حیاتین اور توانائی موجود ہے ان سے بھی انہیں
فائدہ پہنچ رہا ہے۔ نوعِ انسانی سے ہٹ کر سانپ، بچھو، کنکھجورے اور بے شمار حشرات
الارض بھی اللہ تعالیٰ کے اس مفت انعام سے مالا مال ہیں۔ اس مختصر سی تمہید سے یہ
بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرزِ فکر یہ ہے کہ وہ جب انعام
فرماتے ہیں تو مخلوق کو بلاتخصیص اس سے فائدہ پہنچتا ہے اور اللہ تعالیٰ کو مخلوق
کی طرف سے کسی صلہ یا ستائش کی غرض نہیں ہوتی۔ بس یہ ان کی شان کریمی ہے کہ انہوں
نے مخلوق کو پیدا کیا اور اس مخلوق کو زندہ رکھنے کے لئے اتنے وسائل فراہم کر دیئے
کہ فی الواقع مخلوق اس کا شمار ہی نہیں کر سکتی۔
للہ
تعالیٰ نے وسائل بے حد و حساب عطا فرمائے ہیں۔ اس کے برعکس جب ہم سائنسی ترقیات پر
نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں سائنس کی ہر ترقی میں ذاتی منفعت اور دنیاوی لالچ ملتا ہے۔
یہ وہ طرزِ فکر ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرزِ فکر کے متضاد ہے۔ ظاہر ہے جو چیز اللہ
تعالیٰ کی طرزِ فکر کے مطابق نہیں ہے وہ اللہ تعالیٰ کے لئے پسندیدہ نہیں ہے۔ جتنا
قرب اللہ تعالیٰ سے بندے کو ہوتا ہے اسی مناسبت سے بندے میں اللہ تعالیٰ کی طرزِ
فکر منتقل ہوتی رہتی ہے اور اس سے ایسے اعمال سرزد ہوتے رہتے ہیں جن سے مخلوق کو
فائدہ پہنچتا ہے۔ لیکن اس بندے کا اپنا ذاتی فائدہ کچھ نہیں ہوتا۔ تمام اولیائے
کرام کی زندگی اس بات کی شاہد ہے کہ انہوں نے نوعِ انسانی کی جو بھی خدمت کی اس
خدمت کے پیچھے ان کا اپنا کوئی ذاتی فائدہ نہیں تھا اور اگر کسی بندے کا ذاتی
فائدہ ہے تو وہ ہرگز اولیاء اللہ کی صف کا بندہ نہیں ہے۔ کوئی آدمی اپنی کوشش اپنی
ریاضت سے اپنے اندر روحانی صلاحیتوں کو بیدار کر کے یقیناً خرقِ عادات کا اظہار کر
سکتا ہے لیکن اگر اس کی طرزِ فکر اللہ تعالیٰ سے ہم رشتہ نہیں ہے تو یہ تصوّف نہیں
ہے۔ ایک سائنس ہے ایسی سائنس جو لامذہب لوگ بھی اختیار کر سکتے ہیں اور جیسا کہ اس
زمانے میں ہو رہا ہے۔
یورپ
میں جو روحانیت کے اوپر ریسرچ ہو رہی ہے یا روحانی نقطہ نظر سے بقول ان کے جو
ترقیاں ہمارے سامنے آ رہی ہیں ان ترقیوں میں ایک ہی بات لگتی ہے وہ یہ کہ اس ترقی
سے ہم نوعِ انسانی کو کس طرح تباہ کر سکتے ہیں۔ اس ترقی سے ہم اپنا اقتدار کس طرح
مضبوط کر سکتے ہیں۔ اس ترقی سے ہم دوسرے لوگوں کو شکست خوردہ قوم کس طرح بنا سکتے
ہیں یعنی آدمی اپنے خول کے اندر بند ایسی ایجادات کو کہ جن ایجادات کا فائدہ براہِ
راست اللہ کی مخلوق کو نہیں پہنچتا اور اگر کسی تخلیق یا ایجاد کا فائدہ پہنچتا
بھی ہے تو وہ بھی یہ باامر مجبوری پہنچتا ہے۔ اب تک کے حالات شاہد ہیں کہ جن لوگوں
نے سائنسی ترقی حاصل کی ہے اور جو قومیں دنیا میں سب سے آگے ہیں وہاں ایک ہی کشمکش
ملتی ہے کہ ہم کس طرح دوسروں کو نیست و نابود کر کے غالب آ جائیں۔ یہ اس وقت ہے جب
کوئی ترقی براہِ راست ترقی نہیں ہے۔ جو بھی ترقی اب تک ہوئی ہے یا آئندہ ہو گی یا
ہو چکی ہے اس کے مصالحہ پر غور کیا جائے تو اس مصالحہ کی تخلیق کوئی نہیں۔ بجلی
اللہ تعالیٰ کی ایک تخلیق ہے۔ بجلی کو دریافت کرنے کا سہرا بے شک آدمی کے سر پر
بندھا ہوا ہے۔ لیکن یہ کہ بجلی اس نے پیدا کر دی ہے، یہ بات صحیح نہیں ہے۔ بجلی
اللہ تعالیٰ کا ایک انعام ہے۔
سوال
یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ زمین کے سَوتے خشک کر دیں یا پہاڑوں سے آبشار گرنا بند
ہو جائیں۔ بادل برسنا چھوڑ دیں، سارے سمندر خشکی بن جائیں۔ اس وقت بجلی کہاں سے
پیدا ہو گی؟ بجلی پیدا ہونا تو ایک جملہ معترضہ ہے۔ زندگی ہی ختم ہو جائے گی۔
انبیاء کرام کی تعلیمات پر روحانی نقطہ نظر سے اور قلبی مشاہدے کے ساتھ غور کیا
جائے تو یہ پتہ چلتا ہے کہ انبیاء کی ساری تعلیمات کا نچوڑ یہ ہے کہ بندے کی زندگی
کو اللہ تعالیٰ کی طرف موڑ دیا جائے یعنی اگر بندہ انفرادی طور پر زندہ رہتا ہے تو
اس لئے زندہ نہ رہے کہ اس کو اس کی مرضی کے بغیر اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا۔ اس لئے
کہ اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ وہ زندہ رہے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے اس کے اندر صلاحیتوں
کا ذخیرہ جمع کر دیا ہے، تو جب اللہ تعالیٰ اسے توفیق دیں اور وہ ان صلاحیتوں کا
استعمال کرے تو اس کے ذہن میں یہ بات رہے کہ میری صلاحیتوں کا اظہار اس لئے ہو رہا
ہے کہ اس سے اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو فائدہ پہنچے۔
یہ
کہنا کہ إستغناء کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اپنی خواہشات کو ختم کر دے ہرگز صحیح نہیں
ہے۔ یہ سراسر کوتاہ عقلی کی دلیل ہے۔ اس لئے کہ زندگی بجائے خود خواہشات کا نام
ہے۔ زندگی سے خواہشات کو نکال دیا جائے تو زندگی روشنیوں میں تحلیل ہو جائے گی،
کچھ بھی باقی نہیں رہے گا۔ کیا پانی پینا، بھوک لگنا، سونے اور جاگنے کا تقاضہ،
بچوں کی خواہش پیدا ہونا، بچوں کی تربیت کرنا، اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکنے کا
تقاضہ پیدا ہونا خواہشات نہیں ہیں؟ یہ سب خواہشات ہیں۔ مراد یہ ہے کہ تمام خواہشات
پوری کی جائیں لیکن خواہشات کو پورا کرنے میں انسان کا ذہن یہ ہو کہ اللہ تعالیٰ
چونکہ یہ چاہتے ہیں لہٰذا ہم یہ کر رہے ہیں۔
إستغناء سے مراد یہ بھی نہیں ہے کہ آدمی ساری زندگی
روزے رکھتا رہے۔ إستغناء سے مراد یہ بھی نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ وسائل عطا فرمائیں
اور آدمی سوکھی روٹی کھاتا رہے۔ إستغناء سے مراد یہ ہے کہ جو کچھ کرے اللہ کے لئے
کرے۔ اللہ تعالیٰ اگر اطلس و کمخواب کے کپڑے پہناتا ہے تو وہ کپڑے اس لئے پہنے کہ
اللہ تعالیٰ نے پہنائے ہیں، اللہ تعالیٰ اگر ٹاٹ کے کپڑے پہنائے تو آدمی اس میں
بھی اتنا ہی خوش رہے جتنا وہ اطلس و کمخواب کے کپڑے پہن کر خوش ہوتا۔ آدمی کو اللہ
تعالیٰ مرغی کھلائے تو وہ مرغی کھائے۔ لیکن اگر حالات کے تقاضے کے تحت آدمی کو
چٹنی سے روٹی ملے یا ایک وقت روٹی ملے تو اس میں بھی اتنا ہی خوش رہے جتنا وہ مرغی
کھا کر خوش ہوا تھا۔ اور یہ صورت حال اس وقت پیدا ہوتی ہے جب آدمی کے ذہن میں یہ
بات راسخ ہو جائے کہ ہماری زندگی کی ہر حرکت ہر عمل ہماری گفتار کی بنیاد اللہ کا
ایک انعام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بولنے کی صلاحیت دی۔ ہم بولتے ہیں، اللہ تعالیٰ
نے ہمیں سننے کی صلاحیت عطا کی، ہم سنتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں سوچنے سمجھنے
اور تفکر کرنے کی صلاحیت دی ہم سوچتے ہیں، تفکر کرتے ہیں اور جو کچھ کرتے ہیں اس
لئے کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ ایسا کیا جائے۔
اسی قسم اور ایسی قبیل کے لوگوں کے لئے ارشادِ خداوندی
ہے:
’’
وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ‘‘
(سورۃ آلِ عمران – 7)
اور
وہ لوگ جو ‘‘راسخ فی العلم’’ ہیں کہتے ہیں کہ یہ بات یقین اور مشاہدے میں ہے کہ ہر
بات ہر چیز مِن جانب اللہ ہے۔
اس آیت پر غور کیا جائے تو سوچنے اور سمجھنے کے کئی رخ
مُتعیّن ہوتے ہیں۔ تفصیل میں جانے کی بجائے ہم دو رخوں کا تذکرہ کرتے ہیں۔
اللہ
تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وہ
لوگ علمی اعتبار سے مستحکم ذہن رکھتے ہیں یعنی ایسا ذہن جس میں شک و شبہ کی گنجائش
نہیں ہے۔ ایسا ذہن جو شیطانی وسوسوں سے پاک ہے۔ ایسا ذہن جس کے اندر کثافت اور
علمی آلودگیاں نہیں ہیں۔ علمی کثافت اور علمی آلودگی سے مراد یہ ہے کہ اس علم سے
بندوں کو تکلیف پہےچر۔ جس کو عرف عام میں تخریب کا علم کہا جاتا ہے اور وہ لوگ جو
علمی اعتبار سے ایسی مَسند پر قیام فرما ہیں جس پر شکوک و شبہات کی چھاپ نہیں ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ہمارا یقین ہے، ایمان ہے کہ ہر چیز اس کی دنیا میں کوئی بھی حیثیت
ہو، چھوٹی ہو، بڑی ہو، راحت ہو، تکلیف ہو ہر چیز اللہ کی طرف سے ہے۔ اس آیت مبارکہ
میں مختصراً دو رخوں کا تذکرہ اس طرح ہے کہ کچھ لوگ ہیں جو راسخ فی العلم ہیں اور
ان لوگوں کا کہنا یہ ہے یا ان لوگوں کی پہچان یہ ہے یا ان لوگوں کی طرزِ فکر یہ ہے
کہ یہ بات ان کے مشاہدے میں ہوتی ہے کہ:
کائنات
میں جو کچھ موجود ہے، جو ہو چکا ہے، ہو رہا ہے یا آئندہ ہونے والا ہے، اس کا براہِ
راست تعلق اللہ تعالیٰ کی ذات سے ہے یعنی جس طرح اللہ تعالیٰ کے ذہن میں ہے اسی
طرح اس چیز کا یا اس عمل کا مظاہرہ ہو رہا ہے یا فلسفیانہ طرزِ فکر کو نظر انداز
کرتے ہوئے عامیانہ سطح پر ہم اس بات کو چند مثالوں میں پیش کرنا چاہتے ہیں۔