Topics
سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور سیدنا اسماعیلؑ مل کر کعبہ شریف کی تعمیر فرما رہے تھے جب دیواریں کافی بلند ہو گئیں اور پتھر لگانے میں دشواری ہونے لگی تو آپؑ نے اپنے فرزند حضرت اسماعیلؑ سے پتھر لانے کو کہا، جس پر کھڑے ہو کر دیواریں مزید بلند کی جا سکیں۔
چنانچہ حضرت اسماعیلؑ یہ پتھر لائے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس پر کھڑے ہو کر تعمیر کعبہ کا کام مکمل کیا۔
سیدنا ابراہیمؑ اپنے لخت جگر سیدنا اسماعیلؑ سے ملاقات کے لئے مکہ تشریف لے گئے مگر آپ گھر پر موجود نہیں تھے۔ حضرت اسماعیلؑ کی بیوی عمارہؓ نے آپ کی عزت و تکریم کی اور اس وقت کے دستور کے مطابق آپ سے درخواست کی کہ آپ گھر پر تشریف لائیں تا کہ میں آپ کے گرد آلود بال دھونے کی سعادت حاصل کروں لیکن آپ ؑنے فرمایا کہ مجھے نیچے اترنے کی اجازت نہیں ہے چنانچہ حضرت عمارہؓ ایک پتھر لائیں جس پر پہلے آپ ؑنے دایاں پاؤں رکھا اور سر جھکا دیا پھر بایاں پاؤں رکھ کر سر کو جھکایا اور حضرت عمارہؓ نے آپ کا سر دھویا اور پتھر پر جہاں آپ نے پاؤں رکھا تھا، وہاں بہت گہرے نشانات بن گئے۔
جب حضرت اسماعیل گھر تشریف لائے تو حضرت عمارہؓ نے حضرت ابراہیمؑ کی آمد اور ان کے قدموں کے نشانات پتھر پر مرتسم ہونے کا واقعہ بتایا۔ حضرت اسماعیلؑ نے اس پتھر کو محفوظ کر لیا۔ بیت اللہ کی تعمیر کے وقت حضرت اسماعیلؑ نے وہی پتھر لا کر رکھ دیا اور حضرت ابراہیمؑ نے بیت اللہ کی تعمیر مکمل کی اسی پتھر پر کھڑے ہو کر آپ ؑنے حج کا اعلان کیا تھا اور پھر باب کعبہ کی جانب رکھ کر اپنے قبلہ کی سمت درست کی تھی۔
قریش نے سیلاب سے بچانے کے لئے مقام ابراہیمؑ اصل جگہ سے ہٹا کر کعبہ سے بالکل قریب نصب کر دیا تھا۔ حضرت عمرؓ کے دور خلافت میں زبردست سیلابی ریلہ مسجد الحرام میں داخل ہوا اور مقام ابراہیمؑ اپنے ساتھ بہا کر لے گیا۔ تلاش و جستجو کے بعد یہ پتھر محلہ مسفلہ سے ملا۔ حضرت عمرؓ بنفس نفیس مکہ آئے اور تعمیر ابراہیمی کے مطابق سنگ ابراہیمؑ کا اصل مقام تحقیق کیا اور اسے اصل جگہ نصب کرا دیا۔ ایک زمانے تک سنگ ابراہیمؑ مطاف کے باہر مشرقی جانب باب السلام اور کعبہ کے درمیان آٹھ فٹ بلند ایک مختصر عمارت میں ایک صندوق میں رکھا رہا۔ شاہ فیصل شہید نے ۱۳۸۷ھ میں اسے شفاف بلوریں صندوق میں منتقل کیا جس میں یہ مقدس پتھر صاف نظر آتا ہے۔
اس پتھر کی اونچائی پون ذراع(*ایک ذراع۱۸ انچ یا تقریباً ۴۶ سینٹی میٹر کے برابر ہے) اور یہ ایک مربع چوڑا ہے۔ اس پر سات انگلیوں کے نشان واضح نظر آتے ہیں۔
مسجد الحرام میں جماعت کا امام اسی مقام کو اپنا مصلیٰ بناتا ہے۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں سب سے پہلے اذان دے کر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے لوگوں کو حج کے لئے پکارا تھا۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
چار ابواب پر مشتمل اس کتاب کے باب اول میں تمام مقدس مقامات کا تعارف پیش کیا گیا ہے ۔ باب دوئم میں حج وعمرہ کا طریقہ اورباب سوئم میں اراکین حج وعمرہ کی حکمت بیان کی گئی ہے۔جب کہ باب چہارم میں چودہ سوسال میں گزرے ہوئے اورموجودہ صدی میں موجود ایسے مردوخواتین بزرگوں کے مشاہدات وکیفیات جمع کئے گئے ہیں جن کو دوران حج وعمرہ حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کا فیض حاصل ہوا ہے اورجن خواتین وحضرات کو خالق اکبر ، اللہ وحدہ لاشریک کا صفاتی دیدارنصیب ہوا۔