Topics
حضرت احمد بن ابی الحواریؒ کہتے ہیں کہ میں ابو سلیمانؒ دارانی کے ساتھ مکہ مکرمہ کے راستے میں جا رہا تھا کہ میرا مشکیزہ گر گیا۔ میں نے ابو سلیمان کو اس کی خبر دی۔ انہوں نے کہا۔ اے گمشدہ چیز کے لوٹانے والے ہماری گمشدہ چیز ہم کو لوٹا دے۔ تھوڑی دیر بھی نہ گزری تھی کہ ایک شخص آواز دے رہا تھا کہ یہ مشکیزہ کس کا ہے۔ بڑی سخت سردی پڑ رہی تھی اور ہم پوستین پہن رہے تھے۔ ہم نے ایک آدمی کو دیکھا اس سے ابو سلیمان نے کہا کہ ہم سردی کے کپڑوں سے تمہاری کچھ مدد کریں۔ تو اس نے کہا کہ گرمی اور سردی دونوں اللہ کی مخلوق ہیں۔ اگر وہ حکم کرے تو یہ مجھ پر مسلط ہو سکتی ہیں اور اگر وہ ارشاد فرما دے تو یہ مجھے چھوڑ دیں گی۔ میں تو اس جنگل میں تیس برس سے ہوں۔ نہ سردی سے مجھے کپکپی آئی اور نہ گرمی سے پسینہ آیا۔ وہ اپنی محبت کا لباس مجھے سردی میں پہنا دیتا ہے اور گرمی کے زمانے میں اپنی محبت کی ٹھنڈک میں مجھے لپیٹ دیتا ہے۔ اے دارانیؒ ! زہد کو چھوڑتے ہو اس لئے سردی تمہیں ستاتی ہے۔ اے دارانی! تم روتے اور چلاتے ہو اور پنکھوں کی راحت پاتے ہو۔ ابو سلیمان دارانیؒ کہتے ہیں کہ مجھے حقیقت میں اس شخص کے سوا کسی نے نہیں پہچانا اور میری کمزوریوں میں کسی نے متنبہ نہیں کی۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
چار ابواب پر مشتمل اس کتاب کے باب اول میں تمام مقدس مقامات کا تعارف پیش کیا گیا ہے ۔ باب دوئم میں حج وعمرہ کا طریقہ اورباب سوئم میں اراکین حج وعمرہ کی حکمت بیان کی گئی ہے۔جب کہ باب چہارم میں چودہ سوسال میں گزرے ہوئے اورموجودہ صدی میں موجود ایسے مردوخواتین بزرگوں کے مشاہدات وکیفیات جمع کئے گئے ہیں جن کو دوران حج وعمرہ حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کا فیض حاصل ہوا ہے اورجن خواتین وحضرات کو خالق اکبر ، اللہ وحدہ لاشریک کا صفاتی دیدارنصیب ہوا۔