Topics
اللہ کے مقدس گھر خانہ کعبہ کے دیدار سے مشرف ہو کر حج کے مبارک فریضہ سے سکبدوش ہونے کے بعد زندگی کی ایک سب سے بڑی سب سے عظیم الشان سعادت سرور کائناتﷺ کے روضہ اقدسﷺ کے لئے مدینہ منورہ کی جانب روانگی ہے۔ اس مبارک دربار رسالت مآبﷺ کی برکتوں اور فضیلتوں کا کیا کہنا۔ اس مقام مقدس پر اگر ہم سر کے بل جائیں تو بھی گنہگار غلام اپنے اشتیاق کو کم نہیں کر سکتے۔ اس کی گلیوں میں اولیاء کرام نے مدتوں تک جوتے نہیں پہنے۔ اس کی زمین کا چپہ چپہ بابرکت ہے۔
مدینہ منورہ کا سفر
مدینہ منورہ کے سفر کے لئے آپ کی باری کا وقت آپ کا معلم آپ کو بتائے گا۔ آپ اپنا پورا سامان لے کر چلیں(اگر حج کے بعد جا رہے ہیں) کیونکہ یہ باری ایسے حساب سے آئے گی کہ مدینہ منورہ سے سیدھے آپ جدہ جائیں گے، جہاں آپ کو وطن واپسی کے لئے اسی دن یا دوسرے دن ہوائی جہاز تیار ملے گا۔
(اگر حج سے پہلے مدینہ منورہ سے مکہ معظمہ آ رہے ہوں تو حالت احرام میں داخل ہونا واجب ہے)۔
مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ کا فاصلہ ۲۷۷ میل ہے جس کی مسافت طے کرنے میں کم و بیش سات آٹھ گھنٹے لگتے ہیں۔ راستے بھر یہ تصور کریں کہ سلطان دو عالم کے دربار میں حاضر ہونا ہے۔ دھیان اللہ اور اس کے رسول کی طرف رکھیں۔ سلام اور درود کا ورد راستہ بھر کرتے جائیں۔ اس سفر کے دوران ذہن پھر ایک بار چودہ سو سال پیچھے چلا جاتا ہے۔ ہم خیالوں میں دیکھتے ہیں کہ آفتاب رسالتﷺ مکہ مکرمہ میں طلوع ہوا اس کی کرنیں مدینہ منورہ کے افق سے کچھ اس طرح چمکیں کہ کل کائنات اس نور سے منور ہو گئی۔ حضورﷺ جس دعوت حق کے علمبردار، جس امانت الٰہی کے امین اور جس دین حنیف کے پیغمبر تھے اس کا یہی تقاضا تو تھا کہ عرب، عجم، گورے اور کالے، شاہ و گدا غرض یہ کہ دنیا کے ہر فرد و بشر کو حق و صداقت، امن و محبت، اللہ تبارک و تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کی اس کائنات پر حاکمیت کے پیغام کی لازوال دولت سے مالا مال کیا جائے لیکن مکہ معظمہ کی فضا اس وقت ان صداؤں کو سننے کے لئے سازگار نہ تھی۔ اس وقت دعوت حق کے جواب میں ہر طرف تلوار کی جھنکار سنائی دے رہی تھی حتیٰ کہ جب کفار قریش نے حضورﷺ کے درِ دولت کا محاصرہ کر لیا تو اللہ کے حکم سے حضور اکرمﷺ نے حسرت بھری نگاہوں سے مکہ معظمہ کو الوداع کہا۔ اپنے رفیق حضرت ابو بکر صدیقؓ کے ہمراہ رات کی تاریکی میں اس سفر با سعادت کا آغاز فرماتے ہیں اور جب کعبتہ اللہ پر نظر پڑتی ہے تو فرماتے ہیں۔
’’مکہ تو مجھے ساری دنیا سے عزیز ہے مگر تیرے فرزند مجھے یہاں نہیں رہنے دیتے۔‘‘
اور مدینہ منورہ کی جانب ہجرت فرماتے ہیں۔ جبل ثور کی چوٹی پر غار ثور میں حضرت ابو بکر صدیقؓ کی رفاقت میں تین دن تک قیام فرما کر کشاں کشاں منزل بمنزل سوئے مدینہ گامزن ہوتے ہیں۔
پھر نظروں کے سامنے ایک منظر وہ آتا ہے جب لوگ حضور اکرمﷺ کی آمد کا مدینہ منورہ میں انتظار کر رہے ہیں۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
چار ابواب پر مشتمل اس کتاب کے باب اول میں تمام مقدس مقامات کا تعارف پیش کیا گیا ہے ۔ باب دوئم میں حج وعمرہ کا طریقہ اورباب سوئم میں اراکین حج وعمرہ کی حکمت بیان کی گئی ہے۔جب کہ باب چہارم میں چودہ سوسال میں گزرے ہوئے اورموجودہ صدی میں موجود ایسے مردوخواتین بزرگوں کے مشاہدات وکیفیات جمع کئے گئے ہیں جن کو دوران حج وعمرہ حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کا فیض حاصل ہوا ہے اورجن خواتین وحضرات کو خالق اکبر ، اللہ وحدہ لاشریک کا صفاتی دیدارنصیب ہوا۔