Topics
یہ بات تجربے میں ہے کہ جس تنظیم میں بھی یونیفارم ہوتا ہے اس تنظیم میں نظم و ضبط کا معیار اعلیٰ ہوتا ہے جیسے فوج، پولیس۔ اس کے علاوہ عوامی سطح پر نرسیں، ڈاکٹر وغیرہ۔ اجتماعی سطح پر جتنے بھی بڑے ادارے ہیں ان سب میں یونیفارم کو لازم قرار دیا گیا ہے۔
یونیفارم پہچان بن جاتی ہے۔ جسے دور سے دیکھ کر تنظیم کے رکن کی حیثیت سے تسلیم کر لیا جاتا ہے اور خود بندہ بھی اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کو یاد رکھتا ہے۔ وردی پہن کر آدمی چست ہو جاتا ہے اور ڈیوٹی پوری کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے۔
احرام بھی ایک یونیفارم ہے۔ حج کا یونیفارم۔ حج ایک ایسا پروگرام ہے جس میں بندے کا دھیان تمام وقت اللہ تعالیٰ کی جانب لگائے رکھنے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ لباس سب سے زیادہ ذہن کو متوجہ رکھتا ہے۔
اگر رنگ برنگے لباس ہوں تو ہر کسی کا ذہن دوسرے کے لباس کی تراش خراش میں لگ جاتا ہے۔ اس لباس کو حاصل کرنے کی خواہشات بھی پیدا ہوتی ہیں۔ ذہن ’’مرکزیت‘‘ سے ہٹ کر دنیاداری میں لگ جاتا ہے۔
سفید رنگ پاکیزگی کی علامت ہے۔ پاکیزگی اللہ تعالیٰ کی صفت سبحان ہے۔ صفت سبحان لا محدود ہے۔ عالمین میں تمام مخلوق رنگین ہے۔ دنیا کی ہر شئے کسی نہ کسی رنگین غلاف میں بندہے۔ آدمی کی ساخت میں جتنے اعضاء کام کرتے ہیں۔ سب رنگین ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
ترجمہ: اور جو بکھیرا ہے تمہارے واسطے زمین میں اس میں کئی رنگ ہیں۔ نشانی ہے ان لوگوں کے لئے جو سوچتے ہیں۔
ترجمہ: تو نے دیکھا! کہ اللہ نے اتارا آسمان سے پانی پھر ہم نے اس سے طرح طرح کے میوے ان کے رنگ اور پہاڑوں میں گھاٹیاں ہیں۔ سفید اور سرخ ان کے رنگ اور بھجنگ کالے۔
ترجمہ: نکلتی ان کے پیٹ سے پینے کی چیز جس کے کئی رنگ ہیں اس میں آزار چنگے ہوتے ہیں۔ اس میں پتہ ہے ان لوگوں کو دھیان کرتے ہیں۔
خانہ کعبہ کے غلاف کا رنگ سیاہ ہے۔ اور زائرین سفید کپڑے کا احرام پہنتے ہیں۔
روشنی رنگوں سے مرکب ہوتی ہے۔ روشنی ایک برقی مقناطیسی توانائی ہے۔ روشنی ہر طرح کی اشیاء سے گزر جاتی ہے۔ کسی شئے میں سے گزرنے کے لئے اسے کسی وسیلے کی ضرورت نہیں پڑتی۔
رنگ دراصل روشنی کی وہ خاصیت ہیں کہ جو اندھیرے (سیاہ) سے مل کر بنتی ہے۔ کالا رنگ ہمیں اس لئے نظر آتا ہے کہ وہ روشنی کی تمام لہروں کو جذب کر لیتا ہے۔ سفید رنگ ہمیں اس لئے نظر آتا ہے کہ سفید رنگ روشنی کی تمام لہروں کو منعکس کرتا ہے۔
خانہ کعبہ کے اوپر ہر وقت انوار و تجلیات کا نزول ہوتا رہتا ہے۔ خانہ کعبہ کا سیاہ رنگ پردہ ان انوار کو اپنے اندر ذخیرہ کرتا رہتا ہے۔ اور احرام کا سفید رنگ حاجی پر انوار کی لہروں کو منعکس کرتا رہتا ہے۔ جس کی وجہ سے زائر کا دماغ اور اس کا جسم مثالی انوار سے روشن اور مزین ہو جاتا ہے۔ سفید رنگ کا لباس ذہنوں میں پاکیزگی کا احساس پیدا کرتا ہے۔ پاکیزگی سے حواس لطیف ہو جاتے ہیں۔ بندہ بشر لطیف حواس سے عالم بالا کی طرف صعود کرتا ہے اور اس کا رجحان اللہ کی طرف ہو جاتا ہے۔ عبادت اور رجوع الٰہی سے روح کی نگاہ غیب کا مشاہدہ کرتی ہے۔
احرام میں کم سے کم لباس استعمال کیا گیا ہے۔ لباس کی یکسانیت ذہنوں میں ہم آہنگی پیدا کرتی ہے۔ ایک جیسا لباس ذہن کو ایک فکر پر قائم رکھتا ہے۔ احرام باندھتے ہی بندہ حضرت ابراہیم علیہ السلام خلیل اللہ کی طرز فکر میں داخل ہو جاتا ہے۔ زائرین کے جسم پر جب تک احرام ہوتا ہے حج کی سعادت اس کی سوچ کا محور بنی رہتی ہے۔ وہ اپنے اوپر حج کے فرائض کی پابندی لازم کر لیتا ہے گویا احرام باندھنا اللہ تعالیٰ کے سامنے حج کے مناسک کی ادائیگی کا معاہدہ کرنا ہے اور زائرین اس معاہدہ کی تمام شرائط بخوشی پورا کرتے ہیں۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
چار ابواب پر مشتمل اس کتاب کے باب اول میں تمام مقدس مقامات کا تعارف پیش کیا گیا ہے ۔ باب دوئم میں حج وعمرہ کا طریقہ اورباب سوئم میں اراکین حج وعمرہ کی حکمت بیان کی گئی ہے۔جب کہ باب چہارم میں چودہ سوسال میں گزرے ہوئے اورموجودہ صدی میں موجود ایسے مردوخواتین بزرگوں کے مشاہدات وکیفیات جمع کئے گئے ہیں جن کو دوران حج وعمرہ حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کا فیض حاصل ہوا ہے اورجن خواتین وحضرات کو خالق اکبر ، اللہ وحدہ لاشریک کا صفاتی دیدارنصیب ہوا۔