Topics
حضرت مالک بن دینارؒ فرماتے ہیں کہ میں حج کے لئے جا رہا تھا۔ راستے میں ایک نوجوان کو دیکھا جو پیدل چل رہا تھا۔ اس کے پاس سواری تھی نہ تو شہ اور نہ پانی۔ میں نے اس کو سلام کیا اس نے سلام کا جواب دیا پھر میں نے
دریافت کیا، ’’جوان کہاں سے آ رہے ہو؟‘‘
نوجوان نے کہا، ’’اسی کے پاس سے آ رہا ہوں۔‘‘
میں نے کہا، ’’کہاں جا رہے ہو؟‘‘
نوجوان نے کہا، ’’اسی کے پاس جا رہا ہوں۔‘‘
میں نے دریافت کیا، ’’توشہ کہاں ہے؟‘‘
نوجوان نے کہا، ’’اسی کے پاس ہے۔‘‘
میں نے کہا، ’’یہ راستہ بغیر پانی اور توشہ کے طے نہیں ہو سکتا۔‘‘
نوجوان نے کہا، ’’میں نے سفر شروع کرتے وقت پانچ حروف بطور توشہ ساتھ لے لئے تھے۔‘‘
میں نے دریافت کیا، ’’وہ پانچ حروف کیا ہیں؟‘‘
نوجوان نے کہا، ’’اللہ تعالیٰ پاک کا ارشاد کاف، ھا، یا، عین، صاد۔‘‘
میں نے دریافت کیا، ’’اس کا کیا مطلب ہے؟‘‘
نوجوان نے کہا، ’’کاف‘‘ کے معنی کافی یعنی کفالت کرنے والا اور ’’ہا‘‘ کے معنی ہادی یعنی ہدایت اور راہنمائی کرنے والا اور ’’یا‘‘ کے معنی یوؤی یعنی ٹھکانہ دیتا ہے اور ’’عین‘‘ کے معنی عالم یعنی ہر بات کو جاننے والا اور ’’ص‘‘ کے معنی صادق یعنی اپنے وعدہ کا سچا اور پورا۔ پس جس شخص کا رفیق اور ساتھی کفالت کرنے والا، رہنمائی کرنے والا، جگہ دینے والا، باخبر اور سچا ہو ، کیا وہ برباد ہو سکتا ہے؟ کیا اس کو کسی بات کا خوف و خطر ہو سکتا ہے؟ کیا ا کو اس کی ضرورت اور حاجت ہے کہ توشہ اور پانی ساتھ لئے پھرے؟‘‘
حضرت مالک بن دینارؒ فرماتے ہیں کہ میں نے اس کی گفتگو سن کر اپنا کرتہ اس کو دینا چاہا اس نے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اور کہا۔’’بڑے میاں! دنیا کے کرتے سے ننگا رہنا اچھاہے۔ دنیا کی حلال چیزوں کا حساب دینا ہو گا اور حرام چیزوں کا عذاب بھگتنا ہو گا۔‘‘ جب رات کا اندھیرا ہوا تو اس نوجوان نے اپنا منہ آسمان کی طرف کیا اور کہا۔ ’’اے پاک ذات! جس کو بندوں کی اطاعت سے خوشی ہوتی ہے اور بندوں کی نافرمانی سے اس کا کچھ نقصان نہیں ہوتا مجھے وہ چیز عطا فرما جس سے تجھے خوشی ہوتی ہے۔ یعنی اطاعت اور فرمانبرداری اور اس چیز کو معاف فرما جس سے تیرا کوئی نقصان نہیں ہوتا یعنی گناہ اور نافرمانی سے محفوظ فرما۔‘‘
جب لوگوں نے احرام باندھا اور لبیک کہا تو نوجوان خاموش ہو گیا۔ میں نے کہا تم لبیک کیوں نہیں پڑھتے؟ کہنے لگا۔ ’’مجھے اندیشہ ہے کہ میں لبیک کہوں اور وہاں سے جواب ملے نہ تیری لبیک قبول اور نہ تیری تکبیر معتبر ہے نہ میں تیرا کلام سنتا ہوں اور نہ میں تمہاری جانب متوجہ ہوتا ہوں۔‘‘ پھر وہ نوجوان چلا گیا اور میں نے تمام راستے اس کو نہیں دیکھا۔ آخر وہ منیٰ میں نظر آیا اور چند شعر پڑھے جن کا مطلب یہ ہے۔
’’وہ محبوب جس کو میرا خون بہانا اچھا معلوم ہوتا ہے
میرا خون اس کے لئے حرم میں بھی حلال ہے۔
اور حرم سے باہر بھی۔
خدا کی قسم اگر میری روح کو یہ معلوم ہو جائے
کہ وہ کس پاک ذات سے وابستہ ہے
تو قدموں کے بجائے سر کے بل کھڑی ہو جائے۔
ملامت کرنے والے مجھے اس کے عشق میں ملامت نہ کر۔
اگر تجھے وہ نظر آ جائے جو میں دیکھتا ہوں تو تو کبھی بھی لب کشائی اور طعنہ زنی نہ کرے۔
لوگ اپنے جسم سے بیت اللہ کا طواف کرتے ہیں۔
کاش وہ اس بات سے واقف ہوتے کہ روح بھی اللہ رب العالمین کا طواف کرتی ہے۔
عید کے دن لوگوں نے بھیڑ بکری کی قربانی کی لیکن معشوق نے اس دن میری جان کی قربانی قبول فرمائی۔
لوگوں نے حج کیا ہے اور میرا حج تو دل کے مکین کا قرب ہے۔
لوگوں نے جانوروں کی قربانی کی ہے اور
میں اپنی جان کی قربانی کرتا ہوں۔
پھر اس نوجوان نے یہ دعا مانگی۔
’’الٰہی لوگوں نے قربانی کے ساتھ تیرا تقرب حاصل کیا۔ میرے پاس میری جان کے سوا کوئی چیز قربانی کے لئے نہیں ہے۔ اس کو تیری بارگاہ عالی میں پیش کرتا ہوں تو اس کو قبول فرما۔‘‘
خواجہ شمس الدین عظیمی
چار ابواب پر مشتمل اس کتاب کے باب اول میں تمام مقدس مقامات کا تعارف پیش کیا گیا ہے ۔ باب دوئم میں حج وعمرہ کا طریقہ اورباب سوئم میں اراکین حج وعمرہ کی حکمت بیان کی گئی ہے۔جب کہ باب چہارم میں چودہ سوسال میں گزرے ہوئے اورموجودہ صدی میں موجود ایسے مردوخواتین بزرگوں کے مشاہدات وکیفیات جمع کئے گئے ہیں جن کو دوران حج وعمرہ حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کا فیض حاصل ہوا ہے اورجن خواتین وحضرات کو خالق اکبر ، اللہ وحدہ لاشریک کا صفاتی دیدارنصیب ہوا۔