Topics
مدینہ منورہ کے در و دیوار اس خبر سے گونج رہے تھے کہ رحمتہ للعالمین حضرت محمدﷺ مدینہ منورہ تشریف لا رہے ہیں۔ مدینہ کے پیرو جوان، صغیر و کبیر، عورتیں اور بچے سب کی آنکھیں فرش راہ ہیں۔ معصوم بچے فخر و انبساط اور فرحت و سرور میں نغمہ سرائی کر رہے ہیں کہ رحمت کائنات کی آمد آمد ہے۔
سرکار دو عالم اپنے جاں نثار اور رفیق خاص حضرت ابو بکر صدیقؓ کی معیت میں مدینہ منورہ کے افق پر بدر منیر بن کر طلوع ہوئے۔ تمام شہر تکبیر کی روح پرور صدا سے گونج اٹھا۔ انصار ہتھیار سجا سجا کر بے تابانہ گھروں سے رحمت کائنات سرکار دو عالمﷺ کے استقبال کو پہنچے۔ انصار کی معصوم بچیاں نہایت خوش الحانی سے طربیہ ترانے الاپ رہی ہیں۔ آج ہر قبیلہ دل و جان سے آپ پر نثار تھا۔ اسلام کا ہر شیدائی اس بات کا آرزو مند تھا کہ آپﷺ کی میزبانی کا شرف اس کو نصیب ہو۔ ہر ایک حضور اکرمﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر کہتا ’’حضور یہ گھر، یہ در، یہ مال و زر اور یہ جان عزیز سب کچھ نثار ہے۔‘‘ مگر آپ یہی ارشاد فرماتے، ’’میری اونٹنی قصویٰ کو چھوڑ دو جہاں رب العزت کا حکم ہو گا وہیں ٹھہرے گی۔‘‘ قصویٰ چلتے چلتے حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے مکان کے دروازے پر آ کر بیٹھ گئی۔
حضرت ابو ایوب انصاریؓ دوڑتے ہوئے خدمت نبویﷺ میں حاضر ہوتے ہیں اور عرض کرتے ہیں:
’’یا رسول اللہﷺ! یہ سعادت میری قسمت میں لکھی ہے کہ آپﷺ کی میزبانی کا شرف میں حاصل کروں یہاں سے قریب تر میرا ہی گھر ہے۔‘‘
حضرت ابو ایوب انصاریؓ نے کجاوہ اٹھا لیا اور اپنے دو منزلہ مکان میں سرکار دو عالمﷺ کو لے گئے جہاں آپﷺ تقریباً سات ماہ تک فروکش رہے۔
مدینہ منورہ کے سفر میں مدینہ منورہ سے کوئی ۱۰، ۱۲ میل پہلے ایک مقام بئرعلی آئے گا جہاں آپ کا سیارہ(گاڑی) ٹھہر سکتی ہے۔ یہ بڑا بابرکت مقام ہے یہاں سے آپﷺ نے حج کا احرام باندھا تھا۔ خوب دعائیں مانگیں۔ اگر وقت اجازت دے اور مکروہ وقت نہ ہو تو دو رکعت نفل ادا کریں اور حاضری روضہ اقدس کے لئے خود کو تیار کر لیں۔
جب مدینہ منورہ کے قریب پہنچ جائیں تو اپنے شوق دیدار کو اور زیادہ کریں اور جب مسجد نبوی کا گنبد خضراء نظر آئے تو اور کثرت سے درود شریف کا ورد رکھیں۔ شہر میں داخل ہوتے وقت یہ دعا پڑھیں۔
دعا بوقت داخلہ مدینہ منورہ
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
اَللّٰهُمَّ أَنْتَ السَّلَامُ وَمِنْکَ السَّلَامُ وَإِلَيْکَ يَرْجِعُ السَّلَامُ، فَحَيِّناَ رَبَّنَا بِالسَّلَامِ وَأَدْخِلْنَا دَارَ السَّلَامِط تَبَارَکْتَ رَبَّنَا وَتَعَالَيْتَ يَا ذَا الْجَلَالِ وَالْإِکْرَامِط ﴿رَبِّ أَدْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ وَأَخْرِجْنِي مُخْرَجَ صِدْقٍ وَاجْعَلْ لِّي مِنْ لَّدُنْکَ سُلْطَاناً نَّصِيْرًا وَقُلْ جَآئَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْباَطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَهُوْقًا وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا هُوَ شِفَآئٌ وَّرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ وَلَا يَزِيْدُ الظَّالِمِيْنَ إِلاَّ خَسَارًا﴾
. ترجمہ: شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔
الٰہی! تو سلامتی والا ہے اور تیری طرف لوٹتی ہے سلامتی پس زندہ رکھ ہمیں اے ہمارے رب سلامتی کے ساتھ اور داخل فرما ہمیں اپنے گھر میں جو سلامتی والا ہے بابرکت ہے تو اے ہمارے رب اور عالیشان اے عظمت اور بزرگی والے پروردگار داخل فرما مجھے (مدینہ میں) داخل فرمانا سچا اور نکال مجھے مدینہ سے سچا اور عطا کر مجھ کو اپنی جناب سے غلبہ یا فتح و نصرت اور کہہ دیجئے آ گیا حق اور مٹ گیا باطل بلاشبہ تھا باطل مٹنے ہی والا اور ہم اتارتے ہیں قرآن جو کہ شفا اور رحمت ہے ایمان والوں کیلئے اور نہیں بڑھتے ظالم مگر خسارے میں۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
چار ابواب پر مشتمل اس کتاب کے باب اول میں تمام مقدس مقامات کا تعارف پیش کیا گیا ہے ۔ باب دوئم میں حج وعمرہ کا طریقہ اورباب سوئم میں اراکین حج وعمرہ کی حکمت بیان کی گئی ہے۔جب کہ باب چہارم میں چودہ سوسال میں گزرے ہوئے اورموجودہ صدی میں موجود ایسے مردوخواتین بزرگوں کے مشاہدات وکیفیات جمع کئے گئے ہیں جن کو دوران حج وعمرہ حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کا فیض حاصل ہوا ہے اورجن خواتین وحضرات کو خالق اکبر ، اللہ وحدہ لاشریک کا صفاتی دیدارنصیب ہوا۔