Topics
حضرت عبداللہ بن مبارکؒ کا معمول تھا کہ وہ ایک سال حج کیا کرتے تھے اور ایک سال جہاد کیا کرتے تھے۔ وہ فرماتے ہیں کہ ایک سال جبکہ وہ میرا حج کا سال تھا۔ میں پانچ سو اشرفیاں لے کر حج کے ارادے سے چلا اور کوفہ میں جہاں اونٹ فروخت ہوتے ہیں پہنچا تا کہ اونٹ خریدوں۔ وہاں میں نے دیکھا کہ کوڑے پر ایک بطخ مری پڑی ہے اور ایک عورت اس کے پر نوچ رہی ہے۔ میں اس عورت کے پاس گیا اور اس سے پوچھا کہ یہ کیا کر رہی ہو؟ وہ کہنے لگی۔ جس کام سے تمہیں واسطہ نہیں اس کی تحقیق کیوں کر رہے ہو؟ میں نے اصرار کیا تو اس نے بتایا کہ میں سیدانی ہوں، میری چار لڑکیاں ہیں، ان کے باپ کا انتقال ہو گیا ہے۔ آج چوتھا دن ہے ہم نے کچھ نہیں چکھا۔ ایسی حالت میں مردار حلال ہے۔ ابن مبارک کہتے ہیں کہ مجھے ندامت ہوئی اور میں نے پانچ سو اشرفیاں اس کی گود میں ڈال دیں اور حج کا ارادہ ملتوی کر دیا۔ جب حجاج واپس آئے تو انہوں نے مجھے مبارک باد دی اور دعا کی کہ حق تعالیٰ تمہارا حج قبول فرمائے۔ لوگ بتاتے کہ جب فلاں فلاں جگہ جب تم سے ملاقات ہوئی تھی۔ میں حیرت میں تھا کہ یہ سب لوگ کیا کہہ رہے ہیں؟ رات کو حضورﷺ کی زیارت ہوئی۔ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا عبداللہ تعجب نہ کر تو نے میری اولاد میں سے ایک مصیبت زدہ کی مدد کی ہے۔ میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تھی کہ تیری طرف سے ایک فرشتہ مقرر کر دے جو تیری طرف سے حج کرے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
چار ابواب پر مشتمل اس کتاب کے باب اول میں تمام مقدس مقامات کا تعارف پیش کیا گیا ہے ۔ باب دوئم میں حج وعمرہ کا طریقہ اورباب سوئم میں اراکین حج وعمرہ کی حکمت بیان کی گئی ہے۔جب کہ باب چہارم میں چودہ سوسال میں گزرے ہوئے اورموجودہ صدی میں موجود ایسے مردوخواتین بزرگوں کے مشاہدات وکیفیات جمع کئے گئے ہیں جن کو دوران حج وعمرہ حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کا فیض حاصل ہوا ہے اورجن خواتین وحضرات کو خالق اکبر ، اللہ وحدہ لاشریک کا صفاتی دیدارنصیب ہوا۔