Topics

مکہ کے نام

قرآن میں ہے:

’’تحقیق پہلا گھر جو ٹھہرا لوگوں کے واسطے یہی ہے جو بکہ(مکہ) میں ہے۔ برکت والا اور نیک راہ جہاں کے لوگوں کو۔ اس میں نشانیاں ظاہر ہیں کھڑے ہونے کی جگہ ابراہیمؑ کی، اور جو اس کے اندر آیا اسے امن ملا اور اللہ کا حق ہے لوگوں پر حج کرنا اس گھر کا، جو کوئی پاوے اس تک راہ اور جو کوئی منکر ہوا تو اللہ پرواہ نہیں رکھتا جہاں کے لوگوں کی۔‘‘

(آل عمران: ۹۷۔۹۸)

بکہ اور مکہ ایک ہی لفظ ہے۔ بکہ کی ’با‘ میم سے بدل کر یہ لفظ مکہ بن گیا ہے۔ بطلیموس کے جغرافیہ کے مطابق لفظ ’عرب‘ دسویں صدی قبل مسیح میں مستعمل ہوا جبکہ حجاز کے نام سے اس سرزمین کو بہت بعد میں پکارا جانے لگا۔ دوسری صدی مسیح میں مکہ کے لئے ’مکاربا‘ کا نام بھی ملتا ہے۔

توریت میں اس مقام کی نشاندہی مدبار(بادیہ) کے نام سے کی گئی ہے اور قرآن مجید نے اس کو وادی غیر ذی زرع(بن کھیتی کی زمین) کہا ہے۔ لفظ ’’عرب‘‘ کے لفظی معنی بھی بادیہ اور صحرام کے ہیں۔

مکہ کلدانی یا بابلی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی بیت(گھر) کے ہیں۔ یونانی زبان میں یہ لفظ ’مکورابا‘ ہے جو سبائی زبان کے لفظ ’مکربی‘ سے مشتق ہے۔ مکربی کا ترجمہ عبادت گاہ ہے۔

مفہوم کے لحاظ سے مکہ ایسی جگہ کو کہا جاتا ہے جہاں پانی کی قلت ہو اور ظالم اور جابر اپنے انجام کو پہنچتے ہوں۔ مکہ ایسی جگہوں کو بھی کہا جاتا ہے جس کی کشش لوگوں کو اپنی طرف کھینچ لے۔ مکہ کو ’’مکہ‘‘ اس لئے بھی کہتے ہیں کہ یہ شہر کرہ ارض کے وسط میں واقع ہے۔ حضرت علیؓ نے فرمایا ہے:

’’بکہ صرف بیت اللہ شریف ہے اور اس کے ماسوا پورا شہر مکہ ہے اور بکہ ہی وہ مخصوص مقام ہے جہاں طواف کیا جاتا ہے۔‘‘

شہروں کی ماں:

سیدنا عبداللہ بن عباسؓ اس  کی وجہ تسمیہ یہ بیان فرماتے ہیں کہ یہ شہر عزت و تکریم میں دنیا جہاں ک ے شہروں سے بزرگ اور برتر ہے اور چونکہ اسی کو پھیلا کر کرہ ارضی وجود میں آیا ہے اس لئے اسے ام القریٰ’’شہروں کی ماں‘‘ کہا جاتا ہے۔

مکہ شریف کے مزید نام یہ ہیں:

۱۔ الکوثی

۲۔ قریۃ النمل

۳۔ الحاطمۃ

۴۔ المعاد

۵۔ معاد

۶۔ الراس

۷۔ الباستہ

بیت اللہ شریف کے نام:

۱۔ کعبہ

پہلا گھر بنی نوع انسان کے لئے بنایا گیا۔مکہ میں ہے  (آل عمران)

۲۔ بیت العبتین

۳۔ بیت الحرام

۴۔ مسجد الحرام

حدیث شریف میں ہے کہ آسمان اور زمین کی پیدائش کے وقت پانی کی سطح سے سب سے پہلے کعبہ کا مقام نمودار ہوا پھر اس کے بعد زمین پھیلا دی گئی۔

ہندو مذہب کی کتاب ہری ونش پران میں ناجی کمل میں ہے:

’’بھگوان نے مخلوق کو پیدا کرنے کے ارادے سے اس کمل کو بنا کر اوپر سب سے بڑے عبادت گزار تمام جانداروں کے خالق برھماہی کو مقرر کر دیا۔ اس میں پوری زمین کی حفاظت پائی جاتی تھی۔ اس (برھماہی)۔ اس زمین کے رحم سے نکلنے والی کونپلیں پہاڑوں کا درمیانی حصہ ہی جمبودویپ(*ج(جیون)، امبو(پانی)،دویپ(جزیرہ)یعنی ایسا پانی جہاں سے جیون شروع ہوا) ہے۔ 

بڑی عبادتوں کا مرکز اور عمل کرنے کی زمین اس نابھی کمل کی جو پنکھڑیاں ہیں انہیں ہی اندرونی حصے کے پہاڑ اور دھاتیں سمجھنا چاہئے۔ ایسا مقام ہے جسے سمجھنا بے حد مشکل ہے۔ جو غیر آ ریا قوم سے بھرا ہے۔ کمل کے نیچے شیطانوں کے لئے پاتال اس کے بھی نچے نرک(دوزخ)۔ نابھی کمل کے چاروں طرف جو کیسر تھے انہی کو یکتا کا مرکز کہا جاتا ہے اور اس چاروں طرف پایا جانے والا پانی (زم زم) کو چار سمندر کہا گیا ہے۔ زبردست علوم کے نانک پرانے مہارشیوں نے اسی طرح بتلایا ہے۔ ان کا یہ نابھی کمل ہی دنیا کی پیدائش کی جڑ ہوتا ہے۔ اسی نابھی کمل سے پہاڑ، ندی اور دنیا کے مختلف خطے پھیلے تھے۔‘‘(* ہندی سے اردو ترجمے میں بین القوسین الفاظ مترجم کے ہیں)

داروکابن:

سنسکرت میں دار کے معنی ہیں بیوی اور بن کے معنی ہیں جنگل۔بائبل میں مکاشفات یوحنا کے ۱۲باب میں کعبہ کو عورت کہا گیا ہے اور مکہ کو قرآن میں ’’ام القریٰ‘‘ یعنی ’’بستیوں کی ماں‘‘ کہا گیا ہے اور عرب کو جنگل کہا جاتا ہے۔ ڈکشنری میں داروکابن کے معنی ’’تالندہ و شال شبہ ساگر‘‘ ہیں۔ اس لفظ کے معنی ہیں۔

’’ایک جنگل کا نام جسے تیرتھ کہا جاتا ہے۔‘‘

یہ لفظ جس وید منتر میں استعمال ہوا ہے اس کا ترجمہ یہ ہے۔

’’اے پوجا کرنے والے درویش ساحل سمندر کے قریب جو داروکابن ہے وہ انسان کا بنایا ہوا نہیں ہے اس میں عبادت کر کے ان کی مہربانی سے جنت میں پہنچو۔‘‘

(رک وید: ۳،۱۰۰،۱۰)

مکیشوژ:

مکیشوژ کا مطلب ہے خدا کا مکہ یا خدا کے لئے قربانی کی جگہ۔

مکھ:

مکھ کے معنی ہیں۔ The City of Yagya, Makka

آخری الہامی کتاب قرآن میں کعبہ کے لئے جو نام استعمال ہوئے وہ یہ ہیں:

بیت العتیق:

عربی زبان میں عتیق تین معنوں کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ قدیم، آزاد اور معزز و مکرم۔

’’پھر اپنا میل کچیل دور کریں اور اپنی قدریں پوری کریں اور اس قدیم گھر کا طواف کریں۔‘‘

(سورۃ حج۔ ۲۹)

بیت الحرام:

قرآن حکیم میں کعبہ شریف کا تعارف بیت الحرام کے نام سے کرایا گیا ہے۔ یہ خدا کا ٹھہرایا ہوا محترم گھر ہے اس کے احترام کی حدود مقرر ہیں۔

’’اللہ نے ’’کعبہ‘‘ حرمت والے گھر کو لوگوں کے لئے مرکز بنایاہے۔‘‘

(سورۃ المائدہ: ۹۷)

مکہ مکرمہ ہمیشہ مذہبی، معاشی اور تمدنی زندگی کا مرکز رہا ہے۔ زمانہ جاہلیت میں عرب میں اخلاقی پستی اور بدامنی کا دور دورہ تھا لیکن بیت اللہ کی حرمت اور تقدس کی وجہ سے مکہ پر امن شہر تھا۔ اسی مبارک گھر کی برکت تھی کہ سال بھر میں چار ماہ کے لئے امن کی چادر پورے ملک پر محیط ہو جاتی تھی۔ جنگجو اور لوٹ مار کرنے والے قبیلے کشت و خون سے باز رہتے تھے۔

’’اس میں نشانیاں ظاہر ہیں کھڑے ہونے کی جگہ ابراہیمؑ کی اور جو اس کے اندر آیا اس کو امن ملا۔‘‘

(سورۃ آل عمران: ۹۲)

مسجد الحرام:

مسجد الحرام کے معنی حرمت اور عزت والی مسجد کے ہیں۔ اس سے مراد وہ عبادت گاہ ہے جس کے وسط میں خانہ کعبہ واقع ہے۔

’’پاک ذات ہے جو لے گیا اپنے بندے کو راتوں رات ادب والی مسجد(مسجدالحرام) سے پرلی مسجد (مسجد الاقصیٰ)۔‘‘

(سورۃ بنی اسرائیل۔۱)

جغرافیہ دانوں کی تحقیق کے مطابق بیت اللہ کرہ ارض کے تقریباً وسط میں واقع ہے۔ جغرافیائی مرکز ہونے کے علاوہ بیت اللہ امت مسلمہ کا مرکز بھی ہے۔ دنیا بھر کے مسلمان نماز کے وقت اپنا رخ بیت اللہ شریف کی جانب کرتے ہیں۔

سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام مکی زندگی میں عبادت کے لئے اس طرح کھڑے ہوتے تھے کہ بیت اللہ اور بیت المقدس دونوں ایک سمت میں سامنے ہوتے تھے۔ ہجرت کے بعد سترہ ماہ تک بیت المقدس کی طرف رخ کر کے آپﷺ عبادت کرتے رہے۔ 

ہجرت کے دوسرے سال ماہ رجب میں غزرہ بدر سے کم و بیش دو ماہ پہلے قبلہ تبدیل کرنے کا حکم ہوا۔

’’ہم دیکھ رہے ہیں بار بار تمہارا آسمان کی طرف منہ کرنا تو ضرور ہم تمہیں پھیر دیں گے اس قبلہ کی طرف جس میں تمہاری خوشی ہے۔ اب پھیر منہ تو اپنا طرف مسجد الحرام کے اور جس جگہ تم ہوا کرو پھیر منہ اس کی طرف۔‘‘

(سورۃ البقرہ: ۷۴۴)

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’اور لوگوں پر خدا کا یہ حق ہے کہ اس کے گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو وہ اس کا حج کرے اور جو اس حکم کی پیروی سے انکار کرے تو اسے معلوم ہونا چاہئے کہ خدا سارے جہاں والوں سے بے نیاز ہے۔‘‘

’’اور نہ لوگوں کو چھیڑو جو اپنے رب کے فضل اور اس کی خوشنودی کی تلاش میں احترام والے گھر کی طرف جا رہے ہیں۔‘‘

’’حج اور عمرے کو محض خدا کی خوشنودی کے لئے پورا کیا جائے۔‘‘

’’اور سفر حج کے لئے زاد راہ ساتھ لو اور سب سے بہتر زاد راہ تقویٰ ہے۔‘‘

’’اور لڑائی جھگڑے کی باتیں نہ ہوں۔‘‘

’’پھر جب تم حج کے تمام ارکان ادا کر چکو تو جس طرح پہلے اپنے آباؤ اجداد کا ذکر کرتے تھے اسی طرح اب خدا کا ذکر کرو بلکہ اس سے بڑھ کر۔‘‘

حج کا سفر کرنے والا مسافر خدا کا خصوصی مہمان ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حج کے ذریعے دونوں جہاں کی سعادت نصیب ہوتی ہے اور سعید لوگ کامیاب اور کامران ہوتے ہیں۔ حج ایک ایسا عمل ہے جس کے ذریعے انسان خدا کی نافرمانی سے بچتا ہے۔ حاجی دوران حج ہر اس بات پر عمل کرتا ہے جو اس کے لئے سرمایہ آخرت ہے۔ فراخدلی اور ایثار سے کام لیتا ہے۔ ہر ایک کے ساتھ عفو و درگزر اور فیاضی کا برتاؤ کرتا ہے۔

احرام باندھنے کے بعد، ہر نماز کے بعد، ہر بلندی پر چڑھتے وقت اور ہر پستی کی طرف اترتے وقت اور ہر قافلے سے ملتے وقت اور ہرصبح نیند سے بیدار ہو کر حاجی تلبیہ پڑھتے ہیں۔

لبیک الھم لبی، لا شریک لک لبیک، ان الحمد و النعمتہ لک والملک لا شریک لک

ترجمہ: میں حاضر ہوں، خدایا میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں، بیشک ساری تعریف تیرے لئے ہی ہے، نعمت تیری ہی ہے، بادشاہی تیری ہی ہے۔ تیرا کوئی شریک نہیں۔‘‘


Topics


Roohani Haj O Umrah

خواجہ شمس الدین عظیمی

چار ابواب پر مشتمل اس کتاب کے باب اول میں تمام مقدس مقامات کا تعارف پیش کیا گیا ہے ۔ باب دوئم میں حج وعمرہ کا طریقہ اورباب سوئم میں اراکین حج وعمرہ کی حکمت بیان کی گئی ہے۔جب کہ باب چہارم میں چودہ سوسال میں گزرے ہوئے اورموجودہ صدی میں موجود ایسے مردوخواتین بزرگوں کے مشاہدات وکیفیات جمع کئے گئے ہیں جن کو دوران حج وعمرہ حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کا فیض حاصل ہوا ہے اورجن خواتین وحضرات  کو خالق اکبر ، اللہ وحدہ لاشریک کا صفاتی دیدارنصیب ہوا۔