Topics

غسل کعبہ

عموماً سال میں دو مرتبہ غسل کعبہ ہوتا ہے۔ ایک مرتبہ ذیقعد کے آخر یا ذی الحجہ کی ابتداء میں اور دوسری مرتبہ ۱۲ ربیع الاول کو۔ 

اس دن کعبہ شریف کے کلید برداروں کا رئیس اپنے اقربا کے ساتھ سورج طلوع ہونے کے کچھ دیر بعد حطیم میں جا کر نفل ادا کرتا ہے اور پھر آل شبیہ کا آدمی کعبہ شریف کا دروازہ کھولتا ہے۔ عرق گلاب اور مختلف اقسام کے عطر، عود اور انتہائی قیمتی مرکب خوشبوئیں لائی جاتی ہیں۔ ایک کپڑا جسے شال کشمیر کہتے ہیں کعبہ شریف کے اندر لٹکانے کے لئے لایا جاتا ہے۔ آب زم زم میں عرق گلاب ملا کر فرش اور دیواروں کا نچلا حصہ دھونے کے بعد جہاں تک ہاتھ پہنچتاہے۔ دیواروں پر عرق گلاب چھڑک کر گلاب کا عطر لگایا جاتا ہے۔ اسی طرح دوسری خوشبوئیں بھی لگائی جاتی ہیں اور پھر اسفنج سے فرش خشک کرنے کے بعد انتہائی عمدہ اور نفیس انگیٹھیوں میں عنبر، عود اور بخور سلگا کر ہر طرف دھونی دی جاتی ہے۔

سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام خوشبو پسند فرماتے تھے۔ قدیم زمانے میں عرب لوگوں کا یہ دستور تھا کہ کعبہ شریف کی تزئین اور آرائش کرتے تھے اور عود اور صندل اور لوبان کی دھونی دیتے تھے۔ کعبہ شریف کے اندر، باہر چھت اور اندر رکھی ہوئی ہر شئے کو خوشبو سے معطر کیا جاتا تھا۔ کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ دھونی دیتے ہوئے کعبہ شریف کا غلاف چل گیا اور آگ لگ گئی لیکن یہ راج کبھی بھی ترک نہیں کیا گیا۔

ام المومنین سیدہ عائشہ کا ارشاد ہے کہ ’’کعبہ شریف کو خوشبو لگایا کرو کیونکہ یہ اس کی لطافت اور پاکیزگی کا موجب ہے۔‘‘

قریش نے تعمیر کعبہ کے وقت دروازہ سطح زمین سے تقریباً چھ فٹ بلند کر دیا تھا لیکن کعبہ کے اندر فرش کی سطح کعبہ کے باہر زمین کے برابر تھی۔ حجاج بن یوسف نے حضرت ابن زبیرؓ کی تبدیل کردہ عمارت از سر نو قریش کی طرز پر تعمیر کی اور تعمیر میں بچ جانے والے پتھر اندر بھر کر فرش کی سطح کعبہ کے دروازے کے برابر کر دی۔ یہ طرز تعمیر موجودہ زمانے تک قائم ہے۔

کعبہ کے اندر فرش میں سنگ مر مر کی سلیں لگی ہوئی ہیں ان کا رنگ سفید، سرخ اور سبز ہے۔

کعبہ کے اندر چاروں گوشوں میں سونے اور چاندی سے مرصع تختیاں ہیں ان پر منقش کیل لگے ہوئے ہیں۔

کعبہ کی چھت تین چوبی ستونوں پر قائم ہے جس پر پہنچنے کے لئے سیڑھی بھی ہے۔ چھت میں سنہری اور رو پہلی قندیلیں لٹک رہی ہیں۔ ۱۳۷۷ ؁ھ (۱۹۵۸) میں سعودی حکومت نے کعبہ شریف کی چھت تبدیل کرائی اور پرانا سنگ مر مر کا فرش اکھاڑے بغیر نیا فرش بچا دیا گیا جس سے فرش کی سطح دو تین انچ مزید اونچی ہو گئی۔

حضرت ابن عباسؓ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان بتاتے ہیں کہ جو شخص بیت اللہ میں داخل ہوا وہ نیکیوں میں داخل ہو گیا اور جب بیت اللہ سے نکلا تو گناہوں سے پاک صاف نکلا اور اس کے گناہ معاف کر دیئے گئے۔

حضرت عبداللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ فتح مکہ کے دن نبی کریمﷺ اونٹنی پر سوار ہو کر حرم شریف آئے۔ کعبہ کے کلید بردار عثمان بن طلحہ کو طلب فرمایا اور کعبہ کا دروازہ کھولنے کا حکم دیا۔ روایت کے مطابق سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام حضرت علیؓ، اسامہ بن زیدؓ، حضرت بلالؓ اور عثمان بن طلحہؓ کے ہمراہ کعبہ شریف میں داخل ہوئے۔ عثمان بن طلحہؓ نے کعبہ شریف میں داخل ہو کر اندر سے دروازہ بند کر دیا۔ قریش نے کعبہ شریف کی اندرونی دیواروں پر چھت کے اندر اور ستونوں پر انبیائے کرام کی تصویریں اور بیل بوٹے بنا رکھے تھے۔ حضرت ابراہیمؑ خلیل ا للہ کا بت بھی تھا جس کے ہاتھ میں تیر رکھے ہوئے تھے۔ آپﷺ نے فرمایا۔ اللہ مشرکین کو غارت کرے۔ خلیل اللہ کا تیروں سے کیا تعلق؟ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور بی بی مریمؑ کے بت بھی رکھے ہوئے تھے۔ 

پﷺ نے بتوں اور تصویروں سے کعبہ کو پاک کر دیا۔

رسول اللہﷺ نے کچھ دیر کعبہ میں قیام فرمایا اور دو رکعت نماز قائم کی۔ پھر کعبہ شریف کے دروازے پر کھڑے ہو کر حرم میں موجود لوگوں سے خطاب فرمایا اور معافی اور بخشش کا اعلان کیا۔

حضرت ابن عمرؓ نے حضرت بلالؓ سے دریافت کیا کہ آپﷺ نے کعبہ شریف کے اندر کیا عمل کیا تھا۔ حضرت بلالؓ نے فرمایا پہلے دو ستونوں کے درمیان کھڑے ہو کر آپﷺ نے نماز ادا کی تھی۔ اس وقت کعبہ شریف کے اندر چھ ستون تھے۔

حضرت ابن عمرؓ سے منقول ہے کہ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام جب کعبہ کے اندر تشریف لے جاتے تھے تو دروازے کے اندر داخل ہو کر سیدھے آگے جاتے تھے یہاں تک کہ دیوار تین گز پر رہ جاتی تھی۔ آپﷺ کھڑے ہو جاتے اور دو رکعت نماز ادا فرماتے تھے۔

سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے کعبہ شریف کی تعمیر میں اس کے اندر تقریباً ساڑھے چار فٹ گہرا کنواں بنایا تھا۔ کعبہ شریف پر چڑھائی جانے والی نڈر و نیاز اس میں جمع کی جاتی تھی۔ اس کنویں کو ’’الجب‘‘ اور ’’الغضب‘‘ کہا جاتا تھا اور جو خزانہ اس میں جمع ہوتا تھا اسے ’’الابرق‘‘ کہتے تھے۔ ایک مرتبہ ایک شخص جمع شدہ مال چرانے کی نیت سے کنویں میں داخل ہوا کنویں کے منہ پر رکھا ہوا پتھر اس پر گر گیا اور وہ اندر پھنس گیا۔ اس واقعہ کے بعد اس کنویں کا نام ’’الاخسف‘‘(دھنسانے والا) بھی مشہور ہو گیا۔ روایت کے مطابق عہد خزانہ، عہد جرہم اور کچھ عرصے قریش کے دور تک ایک بہت بڑا سانپ مال اسباب سے بھرے ہوئے کنویں میں ڈیرہ جمائے موجود رہا اس طرح خزانے کی حفاظت کا انتظام قدرت کی طرف سے ۵۰۰ سال تک قائم رہا۔ قریش کے زمانے میں تعمیر کعبہ کے وقت ایک بہت بڑا پرندہ اژدہے کو اچک کر لے گیا تھا۔ فتح مکہ کے وقت کنویں میں ستر ہزار اوقیہ سونا موجود تھا۔ حضرت علیؓ نے کزانے کو اسلامی مملکت کے لئے استعمال کرنے کی اجازت طلب کی۔ آپ رسول اللہﷺ نے اس بات کو پسند نہیں کیا۔ آپ رسول اللہﷺ کے بعد خلفائے راشدین کے دور میں اس سے کچھ عرصے بعد تک خزانہ جوں کا توں محفوظ رہا۔

ابن زبیرؓ کی تعمیر تک کنویں کی موجودگی کا ذکر تاریخ کی کتابوں میں ملتا ہے۔ حجاج بن یوسف نے جب کعبہ شریف کی تعمیر کی تو پتھر بھر کر اندر کا فرش دہلیز تک اٹھا دیا۔ اس طرح کنواں ختم ہو گیا اور خزانہ شیبہ بن عثمان بن طلحہ کے گھر میں رکھا جانے لگا۔ ۱۹۹ھ میں حسین بن الحسن العلوی نے خزانہ پر قبضہ کر کے اپنی تحویل میں لے لیا۔ خزانے میں سونے چاندی کی قندیلیں، جواہرات سے مرصع چھتریاں، سونے کی زنجیریں، طلائی فانوس، جانوروں اور انسانی شکل کے سونے چاندی کے بت، سونے چاندی کے برتن اور نفیس و قیمتی کپڑے شامل تھے۔

کعبہ کی دیواریں چاروں طرف سے سیاہ پردے میں ڈھکی رہتی ہیں۔ کعبہ کو زینت دینے کا رواج قدیم زمانے سے ہے۔ اسلام نے اس کو برقرار رکھا۔

حضرت اسماعیلؑ نے سب سے پہلے کعبہ پر غلاف چڑھایا تھا۔ اس کے بعد سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اجداد میں عدنان نے کعبہ پر غلاف چڑھایا۔ تیسرا نام یمن کے بادشاہ تبع اسعد الحمیری کا ہے۔ کعبہ پر غلاف چڑھانے کے ضمن میں مذکورہ افراد کے علاوہ صدیوں پر محیط تاریخ میں کوئی نام نہیں ملتا۔

ظہور اسلام سے تقریباً سات سو سال قبل یمن کا بادشاہ تبع فوج کشی کے ارادے سے مکہ آ یا تھا۔ قبیلہ ہزیل کے چند آدمیوں نے بادشاہ سے کہا کہ مکہ معظمہ میں ایک گھر کے اندر خزانہ ہے۔ اس خزانے میں جواہرات، زبرجد، یاقوت، سونا، چاندی اور دیگر بیش بہا قیمتی اشیاء موجود ہیں۔ اہل مکہ اس گھر کی عبادت کرتے ہیں۔ چند مصاحبوں نے بادشاہ کو مشورہ دیا کہ مکہ پر حملہ کا ارادہ ترک کر دے۔ اگر بادشاہ نے مکہ مکرمہ پر حملہ کیا تو یہ اس کے لئے ہلاکت کا سبب ہو گا۔

شاہ تبع نے مدینہ منورہ کے علماء سے مشورہ کیا۔ انہوں نے کہا اہل مکہ اس گھر کی تعظیم و تکریم کرتے ہیں تمہیں بھی اس کی تعظیم کرنی چاہئے۔ ادب و احترام سے اس گھر کا طواف کرواور فوج کشی کا ارادہ ترک کر دو۔

شاہ نے علماء سے دریافت کیا کہ تم اس گھر کی تعظیم و توقیر کیوں نہیں کرتے؟ علماء نے کہا۔۔۔۔۔۔اس میں شک نہیں کہ وہ مقدس گھر ہمارے جد امجد سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تعمیر کیا تھا مگر اس وقت اس پر بت پرستوں کا تسلط ہے۔ اس کے اندر اور باہر بہت سے بت رکھے ہوئے ہیں۔ ان بتوں پر نذر و نیاز اور چڑھاوے چڑھائے جاتے ہیں اور ان کے نام کی قربانیاں دی جاتی ہیں۔ اس لئے ہم وہاں عبادت میں شریک نہیں ہوتے۔

شاہ تبع نے علماء نے مشورہ قبول کر لیا اور دھوکہ دہی سے بادشاہ کو کعبہ کی بے حرمتی پر آمادہ کرنے کے جرم میں قبیلہ ہزیل کے ان افراد کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیئے گئے۔ بادشاہ عجز و انکساری کے ساتھ مکہ معظمہ میں داخل ہوا۔ بیت اللہ شریف کا طواف کیا سر کے بال منڈوائے اور قربانی کی۔ قبیلہ قریش نے جب کعبہ شریف کی تولیت کا انتظام سنبھالا تو باری باری ہر سال مختلف خاندان کعبہ پر غلاف چڑھاتے تھے۔ یہ روایات زمانہ اسلام تک برقرار رہیں۔ قریش ہر سال یوم عاشورہ یعنی ۱۰ محرم کو کعبہ کا غلاف بدلتے تھے۔ اور اس دن احتراماً روزہ رکھتے تھے۔

غلاف کعبہ پر قرآنی آیات کاڑھنے کا رواج ۷۶۱ ہجری میں والئ مصر سلطان حسن کے حکم سے شروع ہوا۔ سورۃ آل عمران کی آیت ۹۶۔۹۷، سورۃ الماعدہ آیت نمبر ۹۷ اور بقرۃ کی آیت نمبر ۱۲۷۔۱۲۸ تین اطراف کاڑھی جاتی ہیں۔

زمانہ جاہلیت میں عرب کے قبائلی سردار جب زیارت کے لئے آتے تھے تو کعبہ پر لٹکانے کے لئے طرح طرح کے پردے ساتھ لاتے تھے۔ کچھ پردے لٹکا دیئے جاتے تھے باقی کعبہ کے خزانہ میں رکھ دیئے جاتے تھے۔

سیدنا حضورﷺ کے بچپن میں آپ کے چچا حضرت عباسؓ بن عبدالمطلب گم ہو گئے۔ آپؓ کی دادی نے نذر مانی اور بیٹے کی بازیابی کے بعد کعبہ پر سفید رنگ کا ریشمی غلاف کعبہ پر چڑھایا۔ بتایا جاتا ہے کہ ریشمی غلاف سے کعبہ کی دیواروں کو مزین کرنے کا یہ پہلا موقع تھا۔

تاریخ اسلام میں سب سے پہلے سیدنا حضورﷺ نے فتح مکہ کے دن یمنی کپڑے سے بنا ہوا سیاہ غلاف کعبہ شریف پر چڑھایا تھا۔ فتح مکہ کے دن مشرقی سمت سے داخل ہونے والے دستے کی قیادت سعد بن عبادہؓ کر رہے تھے۔ مکہ میں داخل ہوئے تو انہوں نے بے اختیار ہو کر اعلان کر دیا ’’آج کا دن حملے کا دن ہے اور آج حرمت ختم ہو گئی۔‘‘ یہ خبر جب حضورﷺ تک پہنچی تو آپ رسول اللہﷺ نے فرمایا۔’’سعد بن عبادہؓ نے غلط کہا ہے کہ آج کا دن کعبہ کی عظمت کا دن ہے۔ آج کعبہ کو لباس پہنانے کا دن ہے۔‘‘ اور دستے کی قیادت سعد بن عبادہؓ سے لے کر ان کے بیٹے قیس بن سعدؓ کے سپرد کر دی۔

سیدنا حضورﷺ اور حضرت ابو بکر صدیقؓ اپنے زمانے میں کعبہ پر یمنی چادر کا غلاف چڑھاتے تھے۔ مصر فتح ہونے کے بعد حضرت عمر فاروقؓ نے مصر کے قصبہ قبطیہ کے ماہر کاریگروں سے قباطی(*قباطی باریک قسم کے سوتی کپڑے کو کہتے ہیں) کپڑے کا غلاف تیار کرا کے کعبہ شریف پر چڑھایا۔ آپؓ ہر سال نیا غلاف چڑھاتے اور پرانا غلاف حجاج میں تقسیم کر دیتے تھے۔ حضرت عثمان غنیؓ نے بھی اپنے دور خلافت میں قباطی کپڑے کے غلاف تیار کروائے۔

قدیم زمانے سے دستور تھا کہ حج کے بعد ۱۰ محرم کو کعبہ پر غلاف چڑھایا جاتا تھا۔ سیدنا حضورﷺ اور خلفائے راشدین نے اس طریقے کو جاری رکھا۔ حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ:

’رمضان کے روزے فرض ہونے سے پہلے مسلمان یوم عاشورہ(۱۰) محرم کا روزہ رکھتے تھے۔ اور یہ وہ دن تھا جب خانہ کعبہ پر غلاف چڑھایا جاتا تھا۔‘‘

امیر معاویہؓ نے اپنے عہد میں دو مرتبہ غلاف چڑھانے کا طریقہ اختیار کیا۔ یوم عاشورہ کے دن دیبا کا غلاف چڑھایا جاتا تھا۔ اور عیدالفطر کی آرائش کے لئے رمضان کے آخری دن قباطی کپڑے کا غلاف ڈالتے تھے بعد کے خلفاء نے اس کی تقلید کی۔

اسلامی حکومت کے فرمانروا اور ان کا پایۂ تخت تبدیل ہونے کے ساتھ ساتھ سلطنتوں کے آپس کے تعلقات میں اونچ نیچ ہوتی رہی تھی۔ عباسی خلفاء کے انتقال کے بعد مرکزی حکومت برقرار رہی۔ اس کے مختلف علاقوں کے سلاطین غلاف کعبہ تیار کر کے بھیجتے رہے۔ غلاف سفید، زرد، سرخ، سبز اور سیاہ رنگ کے ہوتے تھے۔ بعد میں سیاہ غلاف چڑھانے کا رواج ہو گیا۔

۱۹۶۳ ؁ء میں غلاف پاکستان میں تیار ہوا جس کی پورے ملک میں نمائش کی گئی اور ۲۳ مارچ کو اس کا جشن منایا گیا۔ مصر کو یہ سعادت حاصل رہی ہے کہ وہاں غلاف تیار کرنے کا کارخانہ تیار کیا گیا تھا۔ مصر کے علاوہ ترکی سے بھی غلاف بن کر آتے رہتے تھے۔ کعبہ کے بیرونی غلاف کے علاوہ کعبہ کے اندر کا غلاف، حجرہ نبوی کے پردے اور منبر نبوی کے غلاف ان ملکوں میں تیار کئے جاتے تھے۔ 

سعودی عرب نے غلاف کعبہ تیار کرنے کے لئے مکہ معظمہ کے اندر دارالکسواہ قائم کیا ہے۔ اب غلاف اسی فیکٹری میں تیار کئے جاتے ہیں۔ کسوہ سیاہ کمخواب سے بنایا جاتا ہے۔ جس میں کلمہ شہادت لکھا ہوتا ہے۔ اس کی دو تہائی پٹی پر زردوزی کا کام کیا جاتا ہے جسے حزام کہتے ہیں۔ پٹی میں قرآنی آیات خوشخطی سے کشیدہ کاری کی جاتی ہیں۔

ہر قسم کے حوادثات سے محفوظ ہونے کی وجہ سے اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ میں صرف چند مرتبہ اندر کا غلاف تبدیل کیا گیا ہے۔ البتہ سلاطین عثمانی ہر سال بیرونی اور اندرونی غلاف چڑھاتے رہے ہیں۔ اندر والا غلاف عموماً سرخ رنگ کا ہوتا ہے۔

قدیم زمانے میں دروازے کی جگہ خالی چھوڑ کر غلاف چڑھایا جاتا تھا۔ بعد میں کعبہ شریف کے دروازے پر منقش پردہ ڈالا جانے لگا۔ دروازے کے ڈیزائن کی طرز پر خوبصورت اور دیدہ زیب پردہ ڈالا جاتا ہے جسے ستارہ کعبہ، برقع کعبہ یا پردہ باب کعب کہتے ہیں۔ اس پر سونے اور چاندی کے تاروں سے انتہائی نفاست کے ساتھ قرآنی آیات کشیدہ کی جاتی ہیں۔


Topics


Roohani Haj O Umrah

خواجہ شمس الدین عظیمی

چار ابواب پر مشتمل اس کتاب کے باب اول میں تمام مقدس مقامات کا تعارف پیش کیا گیا ہے ۔ باب دوئم میں حج وعمرہ کا طریقہ اورباب سوئم میں اراکین حج وعمرہ کی حکمت بیان کی گئی ہے۔جب کہ باب چہارم میں چودہ سوسال میں گزرے ہوئے اورموجودہ صدی میں موجود ایسے مردوخواتین بزرگوں کے مشاہدات وکیفیات جمع کئے گئے ہیں جن کو دوران حج وعمرہ حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کا فیض حاصل ہوا ہے اورجن خواتین وحضرات  کو خالق اکبر ، اللہ وحدہ لاشریک کا صفاتی دیدارنصیب ہوا۔