Topics

ہرکام میں نقصان

   

سوال   :   میں جو بھی کام کرتا ہوں ، نقصان ہوتا ہے۔ دوست میری مدد کرنا چاہتے ہیں تووہ کسی نہ کسی پریشانی میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔  لاکھوں کا بزنس کرتا تھا اور اب پیسے پیسے کا محتا ج ہوں اس طرح ہوا اور ہوتا ہے ، عقل اس بات کو تسلیم نہیں کرتی کہ نقصان  ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہوتی ۔ میرا ایک دوست اسی ہزار روپے دینے کو تیار ہوگیا ہے، جو کام سامنے ہے اس میں فائدہ ہی فائدہ ہے۔ آپ بتائے یہ کام کرنا چاہے کہ نہیں، ماہرین نجوم کا کہنا ہے کہ اس وقت تمہارا ستارہ نحس ہے اور اس کی نحوست ایک سال کے بعد ختم ہوگی۔ کیا ستاروں کا اثر انسانی شرف پر غالب آجاتا ہے؟

جواب  :  ہم جب سے پیدا ہوئے ہیں ستاروں کو دیکھتے رہتے ہیں، شاید ہی کوئی رات ایسی ہو کہ ہماری نگاہیں آسمان کی طرف نہ اٹھی ہوں ۔ بڑے مزے کی بات ہے کہنے میں یہ آتا ہے کہ ستارے ہمارے سامنے ہیں، ستاروں کو ہم دیکھ رہے ہیں، ہم آسمانی دنیا سے روشناس ہیں، لیکن ہم کیا دیکھ رہے ہیں اور ماہ انجم کی کونسی دنیا سے روشناس ہیں ، اس کی تشریح ہمارے بس کی بات نہیں،  جو کچھ کہتے ہیں قیاس آرائی سے زیادہ نہیں ہوتا۔ پھر بھی سمجھتے ہے کہ ہم جانتے ہیں،  زیادہ حیرت ناک امر یہ ہے کہ جب ہم دعویٰ کرتے ہیں کہ انسان کچھ نہ کچھ جانتا ہے تو قطعاًنہیں سوچتے کہ اس دعویٰ کے اندر حقیقت ہے یا نہیں۔  انسان کچھ نہ جاننے کے باوجود اس کا یقین رکھتا ہے کہ میں بہت کچھ جانتا ہوں۔

                دن طلوع ہوتا ہے،  دن کا طلوع ہونا کیا شئے ہے ہمیں معلوم نہیں،  طلوع ہونے کا کیا مطلب ہے ہم نہیں جانتے دن رات کیا ہے ؟ا س کے جواب میں اتنی بات کہہ دی جاتی ہے یہ دن ہے اور اس کے بعد رات آتی ہے۔ کیونکہ نوع انسانی کا یہ ہی تجربہ ہے۔ کیا کوئی سنجیدہ طبعیت انسان اس بات سے مطمئن ہوجائے گا۔  دن رات فرشتے نہیں ہے ،  جنات نہیں ہیں، ستارے نہیں ہیں، پھر بھی وہ مظاہرہیں جس سے ایک فرد واحد بھی انکار نہیں کرسکتا ،  ہم صرف اتنا کہہ سکتے ہیں دن رات کو نگاہ دیکھتی ہیں۔ اس لیے قابل یقین ہے لیکن یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ نگاہ کے ساتھ فکر بھی کام کرتی ہے۔  اگر نگاہ کے ساتھ فکر کام نہ کرے تو زبان نگاہ کے بارے میں کچھ نہیں بتا سکتی ،  دراصل ہماری پوری زندگی اور ہر عمل تفکر ہے،  نگاہ محض ایک گونگا ھیولا ہوتی ہے، فکر ہی کے ذریعے تجربات عمل میں آتے ہیں۔ اگر نگاہ کے ساتھ فکر کام نہ کرے تو تما م حواس گونگے بہرے اور اندھے ہیں۔ سمجھا یہ جاتا ہے کہ زندگی اور زندگی کے تمام حواس تفکر سے الگ کوئی چیز ہے حالانکہ تفکرسے الگ کوئی وجود نہیں ہے۔

                اس بات کو وضاحت کے ساتھ اِس طرح بیان کیا جاسکتا ہے، کہ انسان محض تفکر ہے،  فرشتہ محض تفکر ہے ، جنات محض تفکر ہے، علیٰ ہذالقیاس ہر وجود ایک تفکر ہے، ہمارے تفکر میں جو چیزیں ابھرتی ہیں ان کا رشتہ ہر دوسرے تفکر کے ساتھ قائم ہے۔  جس طرح انسان خود اپنے تفکر سے متاثر ہوتا ہے، اسی طرح کائنات میں موجود ہر شئے کے تفکر سے متاثر ہوتا ہے، کسی درخت کو ہم اس لیے پہچانتے ہیں کہ درخت ہمارے تفکر سے ہم رشتہ ہے، فرشتوں اور جنات کا یقین اس لیے کرتے ہیں کہ فرشتوں اور جنات سے ہمارا تفکر نہ صرف یہ کہ واقف ہے بلکہ انسان ، جنات ، آسمان ، ستارے ہر ذی روح ایک دوسرے سے ہم رشتہ ہیں۔  پوری کائنات میں اگر قدرت کا یہ فیضان جاری نہ ہوتو کائنات کے افراد کا درمیانی رشتہ کٹ جائے ۔  انسان لاشمار سیاروں میں آباد ہے اور ان کی قسمیں کتنی ہیں اس کا اندازہ قیاس سے باہر ہے۔ عام زبان میں تفکر کو اناء کا نام دیا جاتا ہے۔ اناء یا تفکر ایسی کیفیات کا مجموعہ ہوتا ہے جن کو مجموعی طور پر فرد کہتے ہیں۔

                اسی طرح کی تخلیق سیارے اور ذرے بھی ہیں، ہمارے شعور میں یہ بات بالکل نہیں آتی یا بہت کم آتی ہے کہ تفکر کے ذریعے ستاروں ، ذروں اور مخلوقات سے ہمارا تبادلہ خیال ہوتا رہتا ہے۔ ان کی اناء یعنی تفکر کی لہریں ہمیں متاثر کرتی ہیں، اور علیٰ ھذالقیاس ہماری اناء کی لہروں سے تمام مخلوق متاثر ہوتی ہے۔

                کہکشانی نظاموں اور ہمارے درمیان بڑا مستحکم رشتہ ہے،  پے درپے جو خیالات ہمارے ذہن میں آتے ہیں ، وہ دوسرے نظاموں اور اُن کی آبادیوں سے موصول ہوتے ہیں،  یہ بات فرد کے شعور پر منحصر ہے کہ وہ خیالات کو کس طرح قبول کرتا ہے،  جس طرح قبول کرتا ہے خیال اُس سانچے میں ڈھل جاتے ہیں،  چونکہ آپ کے شعور نے ستاروں کی نحوست قبول کو کرلیا ہے تو اس لیے ایسی چین بنائی گئی جس کی ہر کڑی ناکامی اور ناداری کی تصویر ہے ،  اس لیے اب آپ کے لیے ضروری ہے کہ کسی دوست کے سرمایہ کو کاروبار میں لگا کر ضائع نہ کریں، آپ کو کسی دوست سے مدد نہیں لینی چاہے۔ آپ چھ ماہ تک قرض لے کر گزارہ کرتے رہیں۔ اس کے بعد کاروبار شروع کیا جاسکتا ہے۔

Topics


Usoloo

Khwaja Shamsuddin Azeemi


ان کالم میں قارئین کے جسمانی، معاشی اور معاشرتی مسائل کے علاوہ بہت ہی زیادہ علمی اور تفکر طلب سوالات بھی ہوتے تھے۔ جن میں پیراسائیکالوجی کے ٹاپک پربہت سے سولات ہیں۔ میں نے ان کالمز میں سے تقریباَ  125  سوالات جوکہ پیراسائیکالوجی اور علمی نوعیت کے تھے کو الگ کرکے کتابی صورت دی۔ تاکہ یہ علمی ورثہ ماضی کی تہہ میں دفن نہ ہوجائے ، علم دوست لوگوں تک ان کو پہنچایا جائے اور مرشد کریم کے علوم کا ذخیرہ محفوظ ہوسکے۔