Topics
سوال : آپ
کی خدمت میں ذہنی کشمکش سے مجبور ہوکر ایک مختصر تجزیہ پیش کررہا ہوں امید ہے کہ
آپ میری اس تشنگی کو مختصر جواب سے دور کردیں گے، شاہد ہمیشہ سے روئے زمین پر شیطانی قوتیں غالب
رہی ہیں یا پھر ان کے اثرات زیادہ محسوس کئےجاتے رہے ہیں۔ دنیا میں حساس آدمیوں کی تعداد ذیادہ رہی ہے
یا بے حس آدمیوں کا غلبہ نمایا ں رہا ہے ، کیاحساس شخص دنیا اور آخرت دونوں جگہ
پر بے چینی میں مبتلا رہے گا حساس طبیعت کے مالک
لو گ انفرادی یا اجتماعی خودکشی سے ملتے جلتے فعل کیوں کرنے پر مجبور ہوتے
ہیں اور اس کا حقیقی ذمہ دار کون ہوسکتا ہے آیا فرد یا خود معاشرہ یا حکومت وقت
، قیامت کے دن کس سے باز پرس ہوگی؟
جواب : ہم
سب جانتے ہیں کہ گھپ اندھیرے میں دیا سلائی جلائی جائے تو اندھیرا غائب ہوجا تا ہے
اور اس کے برعکس دن کے اُجالے میں اگر اندھیرا کیا جائے تو بہت زیادہ اہتمام کی
ضرورت پڑتی ہے مثلاً کمرے کی کھڑکیاں بند کرکے ان کے اوپر پردے ڈالیں گے ، روشن دان
کو بند کریں گے، دروازوں کی درزوں پر کاغذ چپکائیں گے وغیرہ وغیرہ۔ اس کا مفہوم یہ
نکلا اندھیرے کو دورکرنے کے لیے اتنا اہتمام نہیں کرنا پڑتا جس قدر فضاء یا ماحول
کو تاریک کرنے کے لیے کرنا پڑتا ہے۔ دنیا میں انجام کار روحانی قوتوں کا عمل دخل
ہے، نوع انسانی کی پوری تاریخ بتاتی ہے شیطانی اور تخریبی قوتوں نے جب بھی سر
اُبھارا، ایک حد پر جاکر اس طرح ختم ہوگئیں کہ زمین پر صرف ان کا نشان ہی باقی رہ
گیا۔ شداد ، نمرود ، فرعون جیسی بڑی قوتوں کا حشر تاریخ کے صفحوں پر موجود ہے ابھی
حال میں شہنشاہ ایران کی مثال ہے تمام قوتوں کے باوجود بادشاہ کو اپنے وطن میں قبر
بھی نصیب نہیں ہوئی اور وہ مفلوک الحال مسافر کی طرح مر گیا۔
حساس
ہونا بہت اچھی بات ہے لیکن دیکھنا یہ ہوگا کہ حساسیت کی نوعیت کیا ہے؟۔ اگر حساسیت
تعمیر کے لیے ہے تو اس دنیا اور مرنے کے بعد کی دنیا اس کے لیے روشن ہے اورا گر
تخریب کے لیے کوئی شخص حساس ہے یعنی اس کا ذہن صراط مستقیم سے ہٹا ہوا ہے تو یہ حساسیت
اِ س بندہ کے لیے تاریکی ہے۔ روشنی تعمیر اور تاریکی تخریب ہے ، تعمیر رحمانیت ہے
اور تخریب شیطنت ہے، حساس طبیعت آدمی کے اوپر جب مایوسی کا غلبہ ہوجاتا ہے تو وہ
خود کو معاشرہ پر بوجھ سمجھنے لگتا ہے اور مایوسی اسے پہلے ناامیدی کے گہرے کھڈے
میں گرادیتی ہے اور پھر دفن کرنے پر مائل جاتی ہیں۔ خودکشی وہ آدمی کرتا ہے جو
کچھ نہیں کرسکتا، جو زندگی (صلاحیتوں ) سے مایوس ہوجاتا ہے اور جس کے اندر اپنی
ذات کا ادراک ختم ہوجاتا ہے۔ مذہب ناامیدی کی اجازت نہیں دیتا بلکہ اس بات کی دعوت
دیتا ہے کہ ناامیدی سے نکل کر ہاتھ پیر ہلائے جائیں۔ جو لوگ معاشرے اور قدرت کو کو
سنے نہیں دیتے عملی جدوجہد کرتے ہیں یقین و عزم کے ساتھ کوشش کرتے ہیں وہ کامیاب ہوجاتے
ہیں اور خودکشی جیسا گھناونا عمل نہیں
کرتے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا لاتقنطومن الرحمت اللہ
۔۔۔اللہ کی رحمت سے مایوس ہونا کم ہمتی اور بزدلی ہے۔
Khwaja Shamsuddin Azeemi
ان
کالم میں قارئین کے جسمانی، معاشی اور معاشرتی مسائل کے علاوہ بہت ہی زیادہ علمی اور
تفکر طلب سوالات بھی ہوتے تھے۔ جن میں پیراسائیکالوجی کے ٹاپک پربہت سے سولات ہیں۔
میں نے ان کالمز میں سے تقریباَ 125 سوالات جوکہ پیراسائیکالوجی اور علمی نوعیت کے
تھے کو الگ کرکے کتابی صورت دی۔ تاکہ یہ علمی ورثہ ماضی کی تہہ میں دفن نہ ہوجائے
، علم دوست لوگوں تک ان کو پہنچایا جائے اور مرشد کریم کے علوم کا ذخیرہ محفوظ
ہوسکے۔