Topics
جواب : قوت ارادی
کا فقدان، ہر بات میں تاریک پہلونظر آنا،ذرا سا کام کرکے تھک جانا ، اعصابی اور
دماغی کمزوری کی وجہ سے ہے، دماغ اس وجہ سے کمزور ہے کہ آپ کے اندر حرص و ہوس کا
جذبہ بہت زیادہ ہے۔ اس غیر معمولی اور ناپسندید ہ جذبہ نے آپ کو برباد کرکے رکھ
دیا ہے۔ شیشہ پر عنابی رنگ کا باریک کپڑا
لگا کر بیس منٹ تک شیشہ بینی کیجئے اور مراقبہ کیجئے۔ مراقبہ ایک ایسا عمل ہے جس
کے ذریعے جسمانی او ر ر وحانی صحت آسانی کے ساتھ حاصل کی جاسکتی ہے، کھانا کھانے کے تین گھنٹے بعد رات کو اور صبح بیدار
ہونے کے بعد حوائج ضروریہ سے فارغ ہوکر شمال کی طرف رخ کرکے بیٹھ جائیں، گہرے گہرے
سانس لے کر سینہ بھر لیں اور سینہ میں سانس روکے بغیر نکالدیں، سانس ناک کے ذریعے
نتھنوں سے لیں اور نتھنوں سے خارج کریں،
سانس لینے اورنکالنے کے بعد آنکھیں بند کرلیں اور یہ تصور کریں کہ فضاء سے
آکسیجن اور صحت بخش لہریں میرے دماغ کے اندر جذب ہورہی ہیں۔ اپنے اندر آکسیجن جذب کرنے کا عمل دس منٹ تک
کریں، دس منٹ سے زیادہ کرسکیں تو کوئی
مضائقہ نہیں، اس مراقبہ کے بعد آرام سے
لیٹ جائیں اگر نیند آجائے تو سو جائیں۔
اس عمل سے آپ کے اندر مقناطیسی قوت ، فضاء میں سے صحت بخش لہریں اور
آکسیجن ذخیرہ کرلیتی ہے اور یہ ذخیرہ ہی کسی آدمی کے اندر صحت اور تندرستی کا
ضامن ہوتاہے، ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ انسانی فطرت میں ایک مقناطیسی قوت موجود
ہوتی ہے، کمزور سے کمزور اور طاقت ور سے طاقت ور انسان اِس قوت کا کچھ نہ کچھ حصہ
اپنے پاس ضرور رکھتا ہے، ا،سی مقناطیسی
قوت کی ترتیب اور تکمیل قوت ارادی
(Will Power) ہے۔
دنیا
کی قدیم ترین تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے،
اہل بابل ، زرتشی اور ہندوستان کے
سنیاسی اس عمل میں خاص مہارت رکھتے تھے۔
قوت ارادی کو بحال کرنے کے لیے مراقبہ سے زیادہ کوئی عمل کارگر اور موثر
نہیں ہے۔ مراقبہ میں انسانی فطرت میں موجود مقناطیسی قوت ایک نقطہ پر جمع ہوکر
پورے اعصابی نظام میں پھیل جاتی ہے اور یہ قوت خون میں شامل ہوکر وریدوں، شریانوں
اور اعصاب میں سرایت کرجاتی ہے۔
افسردگی
، پریشانی، بے اطمنانی ، نفرت، جنسی بے راہ روی، ہائی بلڈ پریشر، دماغی امراض،
مالیخولیا، خفقان، مرگی، بے خوابی وغیرہ
وغیرہ جیسی بیماریاں قوت ارادی کی کمی سے ہوتی ہیں، اگر قوت ارادی بحال
ہوجائے تو آدمی کامیاب زندگی گزارنے پر قدرت حاصل کرلیتا ہے اور اس کا موثرذریعہ
مراقبہ ہے
Khwaja Shamsuddin Azeemi
ان
کالم میں قارئین کے جسمانی، معاشی اور معاشرتی مسائل کے علاوہ بہت ہی زیادہ علمی اور
تفکر طلب سوالات بھی ہوتے تھے۔ جن میں پیراسائیکالوجی کے ٹاپک پربہت سے سولات ہیں۔
میں نے ان کالمز میں سے تقریباَ 125 سوالات جوکہ پیراسائیکالوجی اور علمی نوعیت کے
تھے کو الگ کرکے کتابی صورت دی۔ تاکہ یہ علمی ورثہ ماضی کی تہہ میں دفن نہ ہوجائے
، علم دوست لوگوں تک ان کو پہنچایا جائے اور مرشد کریم کے علوم کا ذخیرہ محفوظ
ہوسکے۔