Topics
سوال : شاید
آپ دنیا میں واحد ہستی ہیں جس نے اسلام میں ٹیلی پیتھی کی پیوند کاری کی ہے، آپ
ہمیں یہ بتائے کہ یہ علم کس تھیوری کے تحت حاصل کیا جاسکتا ہے؟ ۔ اس علم کو سیکھنے
کی سائنسی توجیہہ کیا ہے؟
جواب : ہر
انسان تین دائروں سے مرکب ہے۔ پہلا دائرہ فرد کا شعور، دوسرا دائرہ فرد کا
لاشعوراور نوع انسانی کا شعور اور تیسرا دائرہ نوع انسانی کا لاشعور اور کائنات کا
شعور ہے۔ ایک انسان جس کو ہم فرد کا نام
دیتے ہیں وہ ان تین دائروں سے مرکب ہے۔ یعنی فرد کا اپنا شعوراور لاشعور، نوع
انسانی کا شعور اور لاشعور اور کائنات کا شعور۔ اس قانون کی
( Equation ) کی تفصیل یہ ہے کہ ایک فرد کے اندر نوع
انسان اور کائنات میں موجود ہر مخلوق کی اطلاعات موجود ہیں اور ان اطلاعات کا آپس
میں تبادلہ ہوتا رہتا ہے اگر فرد کے ذہن میں جنات اور فرشتوں سے متعلق اطلاعات کا
ردوبدل نہ ہوتو فرشتے اور جنات کاتذکرہ زیر بحث نہیں آئے گا۔
دوسرے
الفاظ میں ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ کائنات اور کائنات میں موجود جتنی بھی مخلوق ہے اس
مخلوق کے خیالات کی لہریں ہمیں منتقل ہوتی رہتی ہیں۔ خیالات کی منتقلی ہی دراصل
کسی مخلوق کی پہچان کا ذریعہ بنتی ہے، علیٰ ہذالقیاس ہم بھوک اور پیاس سے اس لیے
باخبر ہیں کہ بھوک اور پیاس کی اطلاع ہمارے ذہن پر خیال بن کر وارد ہوتی ہے، ہم کسی انسان سے اس لیے متاثر ہوتے ہیں کہ اس
آدمی کی شخصیت لہروں کے ذریعے ہمارے اندر کام کرکے لہروں میں جذب ہوجاتی ہے، جس
حد تک ہم کسی خیال کو قبول یا رد کرتے ہیں اِسی مناسبت سے ہم کسی فرد سے قریب اور
دور ہوجاتے ہیں۔ خیالات کے ردو بدل کا یہ رشتہ ٹوٹ جائے تو ہم ایک دوسرے کو پہچان
نہیں سکیں گے، خیالات روشنی کے ذریعے ہم تک پہنچتے ہیں۔ ان ہی خیالات کو ہم اپنی
زبان میں توہم، تخیل، تصور اور تفکر کا نام دیتے ہیں۔
تمام
مخلوق کے سوچنے کی طرزیں ایک نقطہ مشترک رکھتی ہے ۔ یہ نقطہ مشترک ہمیں دوسری
مخلوق کی موجودگی کا علم دیتا ہے۔ انسان
کے لاشعور کا کائنات کے دوردرازگوشوں سے مسلسل ربط ہر وقت قائم رہتا ہے، اس لیے ہم
اپنے خیالات کو ایک نقطہ پر مرکوز کرکے اس ربط کے ذریعے اپنا پیغام کائنات کے دور
دراز گوشوں تک پہنچا سکتے ہیں۔ انسان کو
حیوان ناطق کہا جاتا ہے، ایسا انسان جو
الفاظ کی لہروں کے ذریعے اپنے خیالات دوسروں تک پہنچاتا ہیں۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں
کہ دوسرے حیوان جن کو حیوان غیر ناطق کہا جاتا ہے اپنے خیالات الفاظ کا سہارا لیے
بغیر دوسروں تک منتقل کردیتے ہیں اور دوسرے حیوان ان خیالات کو قبول کرتے اور
سمجھتے ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ الفاظ کا سہارا لیے بغیر بھی خیالات اپنے
پورے مفہوم اور معنی کے ساتھ ردو بدل ہوتے رہتے ہیں۔ ایسا نہیں کہ دو بیل ، دو
بکریاں یا دو کبوتر آپس میں باتیں نہیں کرتے یا ایک دوسرے کے جذبات کا احساس نہیں
ہوتا۔ جس طرح ایک انسان الفاظ کے ذریعے اپنے خیالات و احساسات کا اظہار کرتا ہے
بالکل اسی طرح الفاظ کا سہارا لیے بغیر دوسرے حیوان اپنے جذبات، احساسات کو پورے
معنی کے ساتھ نہ صرف کہ سمجھتا ہے بلکہ قبول کرتا ہے۔
قرآن
پاک میں اللہ تعالیٰ نے چیونٹی اور حضرت سلیمان کی گفتگو کا تذکرہ کیا ہے، وہ بہت غور طلب ہے چیونٹی نے حضرت سلیمان باتیں کی اور حضرت سلیمانؓ نے اس گفتگو کو سمجھا، ظاہر ہے کہ چیونٹی نے الفاظ میں گفتگو نہیں کی
بلکہ اس کے خیالات کی لہریں حضرت سلیمان
کے ذہن نے قبول کی اور ان کو سمجھا ۔ اس واقعہ میں یہ حکمت ہے کہ خیالات ،
احساسات ، جذبات الفاظ کے بغیر بھی سُنے اور سمجھے جاسکتے ہیں۔ ٹیلی پیتھی الفاظ
کے تانوں بانوں سے مبرا ہوکر خیالات منتقل کرنے کا ایک علم ہے۔ اگر ہم کوشش ، محنت
اور توجہ کے ذریعے کائنات کے نقطہ مشترک سے باخبری حاصل کرلیں اور اپنے خیالات اس
نقطہ مشترک میں منتقل کردیں تو کائنات ہمارا خیال قبول کرنے پر مجبور ہے۔ اللہ
تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’ اورہم نے تمہارے
لیے مسخر کردیا جو کچھ آسمانوں اور زمین پر ہے‘‘
بات صرف اتنی سی ہے کہ ہم قانون سے واقف ہوجائیں کہ کائنات کی تمام مخلوق
کے افراد خیالات کو لہروں کے ذریعے ایک دوسرے سے مسلسل اور پیہم ربط رکھتے ہیں
مسلسل مشقوں کے ذریعے اس قوت کو حاصل کرسکتے ہیں۔ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات اورالٰہی
نظام ہے ۔ اسلام میں پیوندکاری نہیں کی جاسکتی ، البتہ دوسرے علوم کو اسلام کی
روشنی میں منور کیا جاسکتا ہے ، یہ ہی کوشش میں نے بھی کی ہے۔
Khwaja Shamsuddin Azeemi
ان
کالم میں قارئین کے جسمانی، معاشی اور معاشرتی مسائل کے علاوہ بہت ہی زیادہ علمی اور
تفکر طلب سوالات بھی ہوتے تھے۔ جن میں پیراسائیکالوجی کے ٹاپک پربہت سے سولات ہیں۔
میں نے ان کالمز میں سے تقریباَ 125 سوالات جوکہ پیراسائیکالوجی اور علمی نوعیت کے
تھے کو الگ کرکے کتابی صورت دی۔ تاکہ یہ علمی ورثہ ماضی کی تہہ میں دفن نہ ہوجائے
، علم دوست لوگوں تک ان کو پہنچایا جائے اور مرشد کریم کے علوم کا ذخیرہ محفوظ
ہوسکے۔