Topics
سوال :
مقدس کتابوں کا مطالعہ کرنے کے بعد جو انکشافات ہوئے ہیں ان میں یہ بھی ہے
کہ نسلی سلسلے کی تخلیق ایک پروگرام کے مطابق دورُخوں پر عمل میں آرہی ہیں ۔ خواہ
وہ انسان ہو یا حیوان ، میں اور میرے ساتھی ’’ دو رُخی ‘‘ تخلیق کو سمجھنا چاہتے ہیں ۔ ازراہ شفقت اپنے
کالم میں پیراسائیکالوجی کے تحت جواب شائع فرمادیں۔
جواب :
پیدائشی سلسلے کے بارے میں یہ کہنا حقیقت پر مبنی ہے کہ پیدائش میں انسان ،
کتّے اور بلی یکساں نوعیت کے حامل ہیں،
ایک مائع لعاب جب دوسرے مائع لعاب میں مل کر تحلیل ہوجاتا ہے اور ایک
تخلیقی سانچے میں ٹھہر جاتا ہے تو ایک خاص پروسیس کے تحت اِس کی نشوونما شروع
ہوجاتی ہے، پہلی رات یہ محلول مٹر کے دانے برابر ہوتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ
بڑھ کر ایک جیتی جاگتی ہنستی سنتی محسوس کرتی تصویر بن جاتی ہے۔ اِس تصویر میں دس
سوراخ ہوتے ہیں اور یہ دس سوراخ پوری زندگی پر محیط ہیں۔ ان ہی دس سوراخوں پر
آدمی کی صلاحیتوں کا دارومدار ہے۔دیکھنا، بولنا ، سونگھنا، سننا جسم کے اند
زہریلے اور فاسد مادّوں کو خارج کرکے جسم کو صاف ستھرا کرنا اور مادّی زندگی کی
حفاظت کرنا ان ہی دس سوراخوں پر قائم ہے۔ ان دس سوراخوں میں سے ایک بھی سوراخ اپنی
ڈیوٹی پوری نہ کرےیا سوراخ کسی معانی میں سوراخ نہ رہے تو اِسی مناسبت سے انسانی
زندگی میں خلّا واقع ہوجاتا ہے اور وہ بیکار، کم صلاحیت یا عضو معطل بن جاتا ہے۔
ان
دس سوراخوں کی تقسیم اِس طرح ہے، کانوں کے
دو سوراخ آدم زاد کے اندر قوت سامعہ ہیں، آنکھوں کے دو سوراخ باصرہ یعنی باہر کے
عکس کو دماغ کی اسکرین پر منتقل کرکے کسی چیز کے ہونے کا علم فراہم کرتے ہیں اور
یہ علم مختلف مراحل سے گزر کر لامسہ بن جاتا ہے۔ ناک کے دو سوراخ ہمیں قوت شامہ
عطا کرتے ہیں، منہ اور حلق کے دو سوراخ ہمیں غذائی معاملات میں خود کفیل کرتے ہیں
ایک طرف ہماری غذائی ضروریات کا دارومدار اس سوراخ پر ہے دوسری طرف یہ سوراخ قوت گویائی
عطا کرتے ہیں۔ نواں سوراخ جہاں کثافت دور کرنے کا ذریعہ ہے وہ افزائش نسل کا ذریعہ
بھی بنتا ہے۔ غذا سے توانائی حاصل کرنے کے بعد جو فضلہ باقی رہ جاتا ہے دسواں سوراخ ان کے اخراج کا ذریعہ بنتا ہے۔ یہ
ایک نظام ہے جو تواتر کے ساتھ قائم ہے اور قیامت تک قائم رہے گا۔
ہمیں
بیج پھوٹنے پر تین چیزوں کا ادراک ہوتا ہے، ایک تنا اور دو پتے۔ اِس تخلیقی عمل سے
یہ بات سامنے آچکی ہے کہ ہر چیز دو رُخ پر قائم ہے اور پھر دو رُخ تقسیم ہوکر کئی
رُخ بن جاتے ہیں ۔ آدمی بھی دو رُخ سے
مرکب ایک تصویر ہے۔ آدمی کے اندر دو دماغ ہوتے ہیں، ایک دائیں طرف دوسرا بائیں
رُخ، دو آنکھیں ہوتی ہیں، ناک کے دو نتھنے ہوتے ہیں، حلق بظاہر ایک نظر آتا ہے
مگر حلق کے اندر گوشت کا ایک لوتھڑا یا کوّا لٹکا رہتا ہے اِ س کی وجہ سے حلق
دورُخوں میں تقسیم ہوجاتا ہے۔ دوہاتھ، دو ٹانگیں، دو پیر ہوتے ہیں، دو گردے ہوتے
ہیں، دو جگر ہوتے ہیں، اگر دل کو تقسیم کیا جائے تو ایک پردے کے ذریعے بنیادی طور
پر دو حصوں میں تقسیم ہوجاتا ہے، پھیپھڑے دو ہیں، علیٰ ھذالقیاس انسانی مادّی جسم
کا جب تجزیہ کیا جاتا ہے توہم یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ انسان کی
تخلیق دو رُخوں پر قائم ہے۔ مزید سوچ وبچار اور چھان بین کی جائے تو ہم یہ دیکھتے
ہیں کہ نوع انسان اور تمام نوعیں بھی دو رُخوں پر قائم ہیں، ایک مذکر اور ایک مونث
، ایک مرد اور ایک عورت، ایک باپ اور ایک ماں۔
Khwaja Shamsuddin Azeemi
ان
کالم میں قارئین کے جسمانی، معاشی اور معاشرتی مسائل کے علاوہ بہت ہی زیادہ علمی اور
تفکر طلب سوالات بھی ہوتے تھے۔ جن میں پیراسائیکالوجی کے ٹاپک پربہت سے سولات ہیں۔
میں نے ان کالمز میں سے تقریباَ 125 سوالات جوکہ پیراسائیکالوجی اور علمی نوعیت کے
تھے کو الگ کرکے کتابی صورت دی۔ تاکہ یہ علمی ورثہ ماضی کی تہہ میں دفن نہ ہوجائے
، علم دوست لوگوں تک ان کو پہنچایا جائے اور مرشد کریم کے علوم کا ذخیرہ محفوظ
ہوسکے۔