Topics
سوال : میں
آپ سے معلوم کرنا چاہتی ہوں کہ مراقبہ کیا ہے؟ اور مراقبہ کے ذریعے قرب الہٰی کس
طرح حاصل ہوجاتا ہے ؟ کیا ہم مراقبہ کے ذریعے دنیاوی کاموں میں مدد لے سکتے ہیں ؟
میں بی اے کی طالبہ ہوں اور بہت گناہ گار مسلمان ہوں ، نماز پنجگانہ کی ایک سال سے
پابند ہوں اور اب میرا یمان اتنا پختہ ہے کہ میری دعا رب العالمین سنتے ہیں اور
پورا کرنے والے ہیں۔لیکن میں نے محسوس کیا ہے کہ میری دعا میرے حق میں تو اللہ
تعالیٰ قبول کرلیتے ہیں لیکن جو دعا میں اپنے والدین یا اپنے گھر کی خوشی کے لیے
مانگتی ہوں وہ قبول نہیں ہوتیں، اس کے علاوہ درخواست ہے کہ میرے لیے ’’ مراقبہ
‘‘تجویز فرمادیں جس سے قرب الٰہی حاصل ہو۔
جواب : اللہ
تعالیٰ نے اپنی قربت اور عرفان حاصل کرنے کے لیے قوانین اور ضابطے بنائے ہیں جو
لوگ ان قوانین اور ضابطوں پر عمل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں بلاشبہ وہ اللہ کے
دوست ہیں، اللہ کی دوستی حاصل کرنے کے لیے قرآن مجید نے جس پروگرام کا تذکرہ کیا
ہے اس میں دو باتیں بہت اہم اور ضروری ہے ۔ قائم کرو صلوۃ اور ادا کرو زکوٰۃ۔
قرآنی پروگرام کے یہ دو اجزا نماز اور زکوٰۃ ، روح اور جسم کا وظیفہ ہیں ۔ وظیفہ
سے مراد وہ حرکت ہے جو زندگی کی حرکت قائم رکھنے کے لیے لازم ہے۔ حضور ﷺ کا
ارشاد ہے کہ ’’ جب تم نماز میں مشغول ہوتو یہ محسوس کر و کہ ہم اللہ تعالیٰ کو
دیکھ رہے ہیں یا یہ محسوس کرو کہ اللہ تعالیٰ ہمیں دیکھ رہا ہے‘‘ اس ارشاد کی تفصیل پر غور کیا جائے تو یہ حقیقت
منکشف ہوتی ہے کہ نماز میں وظیفہ اعضاء کی حرکت کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف
رجوع رہنے کی عادت ہونی چاہے۔
ذہن
کا اللہ کی طرف رجوع ہونا روح کا وظیفہ ہے اور اعضاء کا حرکت میں رہنا جسم کا
وظیفہ ہے۔ قیام الصلوۃ کے ذریعے کوئی بندہ
اس بات کا عادی ہوسکتا ہے کہ اس کے اوپر زندگی کے ہر شعبے میں اللہ کی طرف متوجہ
رہنے کا عمل جاری وساری ہے۔ نماز میں حضوری قلب کے لیے ضروری ہے کہ سیدنا حضور ﷺ
کے اسوہء حسنہ پر عمل کیا جائے ۔ جس حد تک حضور ﷺ کے اسوہء حسنہ پر کسی امتی کا
عمل ہوگا اسی مناسبت سے نماز میں حضوری نصیب ہوجائے گی۔ جو سوچ ہمیں پاکیزگی اور
صفائی اور نورانیت سے دور کرتی ہے ہمیں اس دماغ کو رد کرناہوگا جو ہمارے اندر
نافرمانی کا دماغ ہے اور اس دماغ سے آشنائی حاصل کرنا ہوگی جو جنت کا دماغ ہے اور
اس پر تجلیات کا نزول ہوتا ہے۔ یہ دماغ روح کا دماغ ہے ۔ آسان الفاظ میں یوں کہنا
چاہے کہ جب تک کوئی بندہ اپنی روح سے وقوف حاصل نہیں کرلیتا اس وقت تک نماز میں
حضوری قلب نصیب نہیں ہوگا۔
حضور ﷺ نے نبوت کے اعلان سے پہلے دنیاوی دلچسپیوں سے
عارضی طور پر تعلق ختم کرکے بستی سے باہر بہت دور ویرانے میں گوشہ نشینی اختیار
کرکے غار حرا میں اپنی تمام تر ذہنی صلاحیتوں کو ایک نقطہ پر مرکوز فرمایا، جس کے
نتیجے میں حضور ﷺ روح سے واقف ہوگئے۔ روح
سے واقفیت حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ دنیاوی دلچسپیاں کم کرکے زیادہ سے زیادہ
وقت ذہن کو اللہ کی طرف متوجہ رکھا جائے ۔ روحانیت میں ایک نقطہ پر توجہ مرکوز
کرنے کا نام مراقبہ ہے یعنی خود آگہی اور روح سے واقفیت حاصل کرنے کے لیے مراقبہ کرنا
ضروری ہے۔ مراقبہ کا مطلب ہے ہر طرف سے توجہ ہٹا کر ایک ذات اقدس و اکبر سے ذہنی
رابطہ قائم کرلیا جائے ۔ جب کسی بندے کا رابطہ اللہ سے قائم ہوجاتا ہے تو اس کے
اوپر سے مفروضہ حواس کی گرفت ٹوٹ جاتی ہے اور وہ مراقبہ کی کیفیت میں داخل ہوجاتا
ہے۔ مراقبہ ایسے عمل کا نام ہے جس میں کوئی بندہ بیداری کی حالت میں رہ کر اس عالم
میں سفر کرتا ہے جس کو ہم روحانی دنیا کہتے ہیں۔روحانی دنیا میں داخل ہونے کے بعد
بندہ اس خصوصی تعلق سے واقف ہوجاتا ہے ۔ جو اللہ اور بندے کے درمیان بحیثیت خالق
اور مخلوق ہر لمحہ اور ہر آن موجود ہے
آپ
کے لیے مراقبہ تجویز کیا جارہا ہے ۔ ہر نماز سے پہلے وضو کرکے مصلّے پر بیٹھ کر
گیارہ بار درود شریف پڑھ کر آنکھیں بند کرلیں اور تصور کریں کہ مجھے اللہ دیکھ
رہا ہے۔ اس مراقبہ سے آپ کو ذہنی یکسوئی حاصل ہوجائے گی ۔ ذہنی یکسوئی کے ساتھ
دنیاوی کام بھی اچھے طریقے سے ہونگے اور انشااللہ اچھے نتائج سامنے آئیں گے گھر
میں خوشحالی بھی آئے گی اور سکون بھی ملے گا۔
Khwaja Shamsuddin Azeemi
ان
کالم میں قارئین کے جسمانی، معاشی اور معاشرتی مسائل کے علاوہ بہت ہی زیادہ علمی اور
تفکر طلب سوالات بھی ہوتے تھے۔ جن میں پیراسائیکالوجی کے ٹاپک پربہت سے سولات ہیں۔
میں نے ان کالمز میں سے تقریباَ 125 سوالات جوکہ پیراسائیکالوجی اور علمی نوعیت کے
تھے کو الگ کرکے کتابی صورت دی۔ تاکہ یہ علمی ورثہ ماضی کی تہہ میں دفن نہ ہوجائے
، علم دوست لوگوں تک ان کو پہنچایا جائے اور مرشد کریم کے علوم کا ذخیرہ محفوظ
ہوسکے۔