Topics
سوال : بعض
خاص و عام مرد حضرات کی تحریروں میں پڑھا ہے اور کہتے بھی سُنا ہے کہ عورت ناقص
العقل ہوتی ہے، اس لیے اس کو وہ مقام حاصل نہیں جو مردوں کو حاصل ہے، مثلاً انبیاء
اور اولیاء کی جماعت عورتوں سے خالی ہے ، مذہبی لوگ عورت کو روحانی ترقی میں
ُرکاوٹ سمجھتے ہیں ، عورت کی گواہی پوری تسلیم نہیں کی جاتی وغیرہ وغیرہ ۔ سوال یہ
ہے کہ کیا یہ باتیں صحیح ہیں؟ روحانیت مرد ذات کے لیے کیوں مخصوص ہے؟ خواتین روحانیت کیوں نہیں حاصل کرسکتی؟
جواب ؛ جب
کسی مسئلے کا تجزیہ کیا جاتا ہے تو بہت سی ایسی باتیں شعور کی سطح پر ابھر کر
سامنے آتی ہیں جن کا اگر تجزیہ کیا جائے تو بہت تلخ حقائق سامنے آتے ہیں۔ عفت و
عصمت کا تذکرہ آتا ہے تو وہاں عورت اور صرف عورت زیر بحث آتی ہے، کیا مرد کو عفت
و عصمت کے جوہر کی ضرورت نہیں ہے۔ عورت کے تقدس کو یہ کہہ کر پامال کیا جاتا ہے کہ
وہ کمزور ہے، عقل و شعور سے اس کا کوئی واسطہ نہیں، علم ہنر کے شعبے میں اب تک
عورت کو عضو معطل بنا کر پیش کیا جاتا رہا ہے، دانشوار ، واعظ، گدی نشین حضرات کچھ
ایسے تاثرات بیان کرتے ہیں کہ جن سے عورت کا وجود بہرحال مرد سے کم تر ظاہر ہوتا
ہے۔
قرآن
کہتا ہے کہ اللہ نے ہر چیز جوڑے جوڑے بنائی ،
مذہب کہتا ہے کہ عورت کو مرد کی اُداسی کم کرنے اور دل خوش کرنے کے لیے
پیدا کیا گیا ہے۔ بلا شبہ یہ کھلی ناانصافی اور احسان فراموشی ہے ۔ دنیاوی علوم سے
آراستہ دانشواروں کا یہ وطیرہ کم عقلی پر مبنی قرار دیا جاسکتا ہے ، مگر جب ہم یہ
دیکھتے ہیں کہ روحانی علوم کے میدان میں بھی عورت کو نظر انداز کیا گیا ہے تو
اعصاب پر موت کی سی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ سینکڑوں سال کی تاریخ میں مشہور ومعارف
اولیاء اللہ کی فہرست پر نظر ڈالی جائے تو صرف ایک عورت کی نشاندہی ہوتی ہے اور اِسے
بھی آدھا قلندر کہہ کر اس کی بے حرمتی کی گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا عورت اور مرد
کے اندر الگ الگ روحیں کام کرتی ہیں؟ کیا روح میں بھی مرد عورت کی تخصیص کی جاسکتی
ہے؟ کیا روح بھی ضعیف اور کمزور ہو تی
ہے؟ اگر ایسا نہیں ہے تو عورت کی روحانی
اقدار کوکیوں محجوب رکھا گیا۔ مردوں کی طرح ان خواتین کا تذکرہ کیوں نہیں کیا گیا
جو اللہ کی دوست ہیں۔؟
وہ
کون سی صفات ہے جو قرآن میں مردوں کے لیے بیان ہوتی ہیں اور عورتوں کو ان سے
محروم رکھا گیا ہے؟ اللہ تعالیٰ مرد اور
عورتوں کی یکساں صفات بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں۔ ’’ تحقیق مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں، ایمان والے مرد اور ایمان والی عورتیں اور
قرآن پڑھنے والے مرد اور قرآن پڑھنے
والی عورتیں، سچ بولنے والے اور سچ بولنے والیاں، عاجزی کرنے والے اور عاجزی کرنے
والیاں، خیرات دینے والے اور خیرات دینے والیاں، روزہ رکھنے والے اور روزہ رکھنے
والیاں، نگہبانی کرنے والے اپنی شرم گاہ کی اور نگہبانی کرنے والیاں، اللہ کو یاد
کرنے والے اور اللہ کو یاد کرنے والیاں تیار کیا ہے اللہ نے واسطے ان کے بخشش اور
اجر بڑا‘‘ سورۃ الحجرات۔
صرف
یہ ہی نہیں بلکہ اللہ نے اکثر عورتوں کا ذکر قرآن کریم میں متعدد مقامات پر کیا
ہے ، چنانچہ سورۃ النساء،
سورۃ الانبیاء، سورۃ آل عمران میں
حضرت مریم ؓ کا ذکر خیر موجود ہے۔ سورۃ
طہٰ میں حضرت موسیٰ کی بہن کا ذکر اس انداز میں کیا گیا ہے کہ انہوں نے
اپنی خوش تدبیری سے اپنی والدہ کو حضرت موسیٰ کی پرورش کے لیے شاہی محل میں
پہنچادیا۔ ( توریت میں حضرت موسیٰ کی بہن کو نبّیہ قرار دیا گیا ہے) اسی طرح سورۃ القصص ، سورۃ تحریم میں حضرت
آسیہ ؓ کا ذکر، سورۃ ہود میں حضرت سارہ ؓ کو حضرت ابراھیم ؓ کی اہل بیت اور سورۃ نساء میں حضور سرور
کائنات ﷺ کی ازدواج مطہرات کو قرآن پا ک
نے خود مخاطب کیا ہے،۔ آج سے ڈیڑ ھ دو
ہزار سال قبل ہادی برحق ﷺ نے عورت کی عظمت کا برسرعام اعلان کیا اور اسے
ہر جگہ اور ہر مقام اور ہر لحاظ سے مرد کے برابر اور مساوی حقوق کا حق دار ٹھرایا
ہے۔
نبی
آخر الزمان ﷺ کی رسالت برحق کے سلسلے میں سب سے پہلے ایک
عورت حضرت خدیجہؓ کی گواہی کو معتبر مانا گیا۔ مسلمانوں کو تیمم کی سہولت حضرت
عاشہ صدیقہ ؓ کی بدولت حاصل ہوئی۔ واقعہ
افک میں خود اللہ تعالیٰ نے ان کی بریت کے لیے آیات نازل کیں۔ اسلام کی پہلی شہید ایک خاتون سمیہ ؓ تھی۔ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ حضرت محمد ﷺ پر اترنے والے قرآن نے تاریخ کی مظلوم ترین
عورت والدہ یسوع مسیح حضرت مریم کو وہی تقدس عطا کیا جو ابراھیم ، یونس ، ھود اور
یوسف کو دیااور جس طرح ان کے تذکرے سے مزین سورتیں ان کے نام سے منسوب ہیں، اسی طرح جس سورۃ میں حضر ت مریم ؓ اور حضرت عیسیٰ کا ذکر کیا گیا ہے اس کا نام
سورۃ مریم ہے۔ اگر قرآن میں عورت کا مقام مرد سے کم ہوتا اور اسکی بزرگی اور عظمت مرد کے مساوی نہ ہوتی تو قرآن پاک کی
یہ سورۃ مریم کی بجائے حضرت عیسیٰ کے نام سے منسوب کی جاتی۔
حضر
ت خدیجہ الکبریٰ غار حرا کی کیفیات و واردات میں اگرحضور ﷺ کی دل جوئی نہ کرتیں تو کچھ نہیں کہا جاسکتا
اس گھبراہٹ کی صورت کیاہوتی ۔ خولہ بنت ازور عورت تھیں لیکن ان کی شمشیر خار شگاف
بڑے بڑے جیالوں کا پتہ پانی کردیتی تھی۔
یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ دنیاوی معاملات میں کوئی عورت مرد کے برابر
ہوسکتی ہے مگر روحانی صلاحیتوں اور ماورائی علوم میں وہ مردوں سے کم تر ہے۔ حقیقت
یہ ہے کہ تاریخ نے عورت کے اس معاملے میں انتہاہی بخل سے کام لیا ہے۔ اس کی وجہ
سمجھ میں آتی ہے کہ کاغذ اور قلم پر ہمیشہ سے مردوں کی اجارہ داری قائم ہے۔
عورت
مردکا نصف حصہ ہے، جس کے خون ایک ایک ایک قطرہ مرد کا ایک ایک عضو بن جاتا ہے۔ یہ
عورت وہ عورت ہے جو اپنے اندر تخلیقی فارمولوں سے دماغ کے بارہ کھرب خلیوں (Cells) کو
جنم دیتی ہے، یہ عورت وہ عورت ہے جو پیغمبروں کی ماں ہے، یہ عورت وہ عورت جو مرد
کی روح کے لیے زندگی میں کام آنے والی توانائی
(Enrgy) کے
تانے بانے سے جسمانی خدوخال کا لباس تیار کرتی ہے، یہ عورت وہ ماں ہے جو نو ماہ اور دو سال تک
اپنا خون جگر بچے کے اندر اُنڈلتی رہتی ہے۔ یہ کیسی بدنصیبی اور ناشکری ہے کہ وہ ہی مرد جس کی رگ رگ میں
عورت کی زندگی منتقل ہوتی رہتی ہے، مرد اس کو تفریح کا ذریعہ سمجھتا ہے اور مردوں
سے مقام میں کمتر ثابت کرنے کے لیے ایڑھی چوٹی کا زور لگا تا ہے۔ بے روح معاشرہ نے عورت کو مردکے مقابلے میں
ایسا کردار بنا دیا ہے جس کو دیکھ کر ندامت سے گردن جھک جاتی ہے ، ہائے یہ کیسی بے حرمتی ہے اس ہستی کو جس نے
اپنا سب کچھ تیج کر مردوں کو پروان چڑھایا۔
قرآن
پاک کے ارشاد اور نبی مکرم ﷺ کی احادیث
اورظاہری و باطنی مشاہدہ اور تجربے کی
بنیاد پر یہ بات سورج کی طرح روشن ہے کہ جس طرح مرد کے اوپرروحانی واردات مرتب
ہوتی ہے اور وہ غیب کی دنیا میں داخل ہوکر اللہ نشانیوں کا مشاہدہ کرتا ہے ، اسی
طرح عورت بھی روحانی دنیا میں ارتقائی منزل طے کر کے مظاہر ہ قدرت ، قدرت کا مطالعہ اور قدرت کے ظاہری و باطنی
اسرار و رموز سے اپنی بصیرت اور تدبیر کی بناء پر استفعادہ حاصل کرتی ہے۔ عورت اور
مرد کی روحانی صلاحیتیں مساوی ہیں ۔ روحانی علوم کے سلسلے میں عورت اور مرد کا
امتیاز برقرار نہیں رکھا جاسکتا ۔ مرد اور عورت کے اندر ایک ہی روح کام کرتی ہے۔
عورت کے اندر وہ تمام صلاحیتیں اور صفات موجود ہیں جو قدرت نے مرد کو ودیعت کی
ہیں۔ جب ایک عورت رابعہ بصری بن سکتی ہے تو دنیا کی تمام عورتیں اپنے اندر اللہ کی
دی ہوئی روحانی صلاحیتوں کو بیدار کرکے ولی اللہ بن سکتی ہے۔
Khwaja Shamsuddin Azeemi
ان
کالم میں قارئین کے جسمانی، معاشی اور معاشرتی مسائل کے علاوہ بہت ہی زیادہ علمی اور
تفکر طلب سوالات بھی ہوتے تھے۔ جن میں پیراسائیکالوجی کے ٹاپک پربہت سے سولات ہیں۔
میں نے ان کالمز میں سے تقریباَ 125 سوالات جوکہ پیراسائیکالوجی اور علمی نوعیت کے
تھے کو الگ کرکے کتابی صورت دی۔ تاکہ یہ علمی ورثہ ماضی کی تہہ میں دفن نہ ہوجائے
، علم دوست لوگوں تک ان کو پہنچایا جائے اور مرشد کریم کے علوم کا ذخیرہ محفوظ
ہوسکے۔