Topics

اندرونی صلاحیتیں


سوال  :   جیسا کہ ہمیں بتایا گیا ہے کہ مراقبہ اس مشق کو کہتے ہیں جس میں آنکھیں بند کرکے ذہن کو کسی خیال یا تصور پر مرکوز کیا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آنکھیں بند کرکے ذہن کومرکوز کرنے سے ہمیں کس طرح روحانی فوائد حاصل ہوتے ہیں؟

جواب   :   آئیے ہم اپنی دن بھر کی مصروفیت کا جائزہ لیں۔ صبح بیدار ہوتے ہی ہمارے ذہن پر دفتر یا دُکان پر جانے کا خیال واردہوتا ہے اس خیال کے زیر اثر ہم تیار ہوکر دُکان یا دفتر کی جانب چل پڑتے ہیں۔ راستے میں بہت سے چہرے اور مناظرنگاہوں کے سامنے سے گزرتے ہیں۔  ِقسم ِقسم کی آوازیں کان میں پڑتی رہتی ہیں،  چند مناظر یا واقعات توجہ اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں، کوئی حادثہ نظر آتا ہے تو ہمارے ذہن پر نقش چھوڑ جاتا ہے۔ کسی نئے سائن بورڈ پر نگاہ پڑتی ہے تو اِسے پڑھنے لگتے ہیں۔  دفتر یا دُکان پرپہنچ کر ہم کاروباری امور کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں،  اور ذہن میں زیادہ تر دفتری معاملات سے متعلق خیالات دور کرتے رہتے ہیں۔

                دفتریا دُکان سے گھر پہنچ کر گھریلو معاملات میں مصروف ہوجاتے ہیں، کبھی سیرو تفریح کے لیے نکل جاتے ہیں، کسی عزیز یا دوست سے ملنے چلے جاتے ہیں، کوئی رسالہ یا کتاب پڑھنے لگ جاتے ہیں یا  ٹی وی دیکھنے میں مشغول ہوجاتے ہیں یہاں تک کے رات ہوجاتی ہے اور سو جاتے ہیں، اگلا دن بھی کم وبیش اسی طرح مصروفیات لے کر طلوع ہوتا ہے۔ ان تمام امور کا تجزیہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارا ذہن ہمہ وقت ماحول کی اطلاعات میں منہمک رہتا ہے۔  ہماری توجہ زیادہ اور بہت زیادہ وقفہ تک بیرونی اطلاعات کی طرف مبذول رہتی ہے۔ بیداری کا تمام وقت اسی طرح ذہنی مصروفیت میں گزر جاتا ہے تفکر کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ہمیں خالی الذہن ہونے کا وقت بالکل نہیں ملتا۔ ماحول کے معاملات ہر وقت ذہن میں گردش کرتے رہتے ہیں۔ خالی الذہن ہونے سے مراد یہ نہیں کہ ذہن میں خیالات کی آمد بند ہوجائے، بلکہ خالی الذہن ہونے کا مطلب توجہ کا رُخ تبدیل ہونا ہے۔ اگر ہم کوئی کتاب پڑھ رہے ہیں تو اس وقت ہماری توجہ کا مرکز کتاب ہوگی،  اگر کسی سے باتیں کررہے ہیں تو توجہ کو مرکز مخاطب ہوگا۔  چنانچہ جس چیز کی طرف ہم ارادے کے ساتھ متوجہ ہونگے وہ چیز توجہ کا مرکز قرار پائے گی اور دیگر چیزوں کی حیثیت ثانوی ہوگی

                ان تشریحات کی روشنی میں خالی الذہن ہونے کی تعریف یہ ہے کہ ہماری توجہ یا ذہنی مرکزیت کسی ایک نقطہ پر قائم رہے اور ہم ماحول کی اطلاعات یا ذہن میں آنے والے کسی اور خیال پر توجہ نہ دیں۔ جب ہم اس بات کو حاصل کرلیں گے کہ ہمارا ذہن ماحول کی اطلاعات سے غیر متعلق ہوکر ایک نقطہ پر مرکوز ہوجائے تو اِ س حالت کو ذہن کی مرکزیت یا خالی الذہنی کہتے ہیں۔  عام حالات میں ہمیں خالی الذہن ہونے کی عادت نہیں ہے ، لیکن انسان کے اندر یہ صلاحیت موجود ہے کہ ارادے کے ساتھ جس عمل کی تکرار کرتا ہے اسے حاصل کرلیتا ہے،  چنانچہ مسلسل مشق کے ذریعے ہم خالی الذہن ہونے کی صلاحیت بیدار کرسکتے ہیں ،  اس مشق کا اصطلاحی نام  ’’مراقبہ  ‘‘ ہے۔

                مراقبہ کی مشق میں وہ تمام ذرائع اختیار کئے جاتے ہیں جن سے انسان کا ذہنی تعلق ماحول کی اطلاعات یا خارجی تحریکات سے منقطع ہوجائے۔  جب ماحول سے آنے والی اطلاعات یا بیرونی تحریکات کا سلسلہ رک جاتا ہے اور ذہنی قوتیں ارادے کے ساتھ ایک نقطہ پر مجتمع رہتی ہیں تو اندرونی تحریکات خفی اطلاعات ذہن کی سطح پر آنے لگتی ہیں۔ اس وقت آدمی ان صلاحیتوں کے ذریعے دیکھتا، سنتا، چلتا پھرتا اور سارے کام کرتا ہے جو اندورنی صلاحیتیں یا روحانی صلاحیتیں کہلاتی ہے

Topics


Usoloo

Khwaja Shamsuddin Azeemi


ان کالم میں قارئین کے جسمانی، معاشی اور معاشرتی مسائل کے علاوہ بہت ہی زیادہ علمی اور تفکر طلب سوالات بھی ہوتے تھے۔ جن میں پیراسائیکالوجی کے ٹاپک پربہت سے سولات ہیں۔ میں نے ان کالمز میں سے تقریباَ  125  سوالات جوکہ پیراسائیکالوجی اور علمی نوعیت کے تھے کو الگ کرکے کتابی صورت دی۔ تاکہ یہ علمی ورثہ ماضی کی تہہ میں دفن نہ ہوجائے ، علم دوست لوگوں تک ان کو پہنچایا جائے اور مرشد کریم کے علوم کا ذخیرہ محفوظ ہوسکے۔