Topics
سوال : محبت
کیا ہے؟ عشق کسے کہتے ہیں؟ کیوں ہوتا ہے ، جب محبت جنس مخالف سے ہوتی ہے
تو (اس کے علاوہ) دوسروں کے لیے جنسی
جذبات مردہ کیوں ہوجاتے ہیں ؟ یک طرفہ اور دوطرفہ محبت کیسے ہوتی ہے؟ اگر محبوب نہ
ملے تو لوگ ساری عمر اس کے بغیر گزار دیتے ہیں ۔ مگر کچھ لوگ خود کشی کرلیتے ہیں۔
جواب :
تعلق خاطر کے جذبات تین دھاروں میں بہتے ہیں ، محبت ، عشق ، عقیدت۔ تعلق جب
اپنی ذات کی حدود میں ہوتا ہے تو محبت ہے ۔ اپنی ذات سے آدمی بے خبر ہوجائے تو
عشق اور جب ذات کی لہریں دوسرے کی ذات سے مغلوب ہوجائے تو عقیدت ہے۔ محبت مظاہراتی
یقین ہے ، عشق علم الیقین ہے اور عقیدت
مشاہداتی یقین ہے۔ محبت میں جسمانی لمس کا
تقاضہ رہتا ہے۔عشق میں مادیت پردہ غیب میں ہوجاتی ہے اور عقیدت میں اللہ نور
السموات والارض کے انوار کا ذخیرہ ہوجاتا ہے ۔
اس
کی مثال یہ ہے کہ مجنوں دریا کے کنارے چھلنی میں ریت چھان رہا تھا ، ایک عقلمند
آدمی کا وہاں سے گزر ہوا، اس نے پوچھا میاں مجنوں کیا کررہے ہو، مجنوں نے کہا
لیلیٰ کو ڈھونڈ رہا ہوں ، عقلمند نے (محبت والے) آدمی سے کہا، ریت میں لیلیٰ کہاں ، مجنوں بولا ریت میں یہ
سفید ذرات جو چمک رہے ہیں یہ لیلیٰ کے رخسار کا عکس ہیں ، یہ محبت ہے۔
زید
اپنے جیسے آدمی محمودکو چاہتا ہے ، محمود اسے گھر سے نکال دیتا ہے اور دروازہ بند
کرلیتا ہے ۔ زید دروازے کے سامنے ڈیرہ ڈال دیتا ہے ، ایک شخص نے اس سے پوچھا ،
میاں اب کیوں بیٹھے ہو ، دروازہ بند ہوگیا ہے ، محبوب اب وہ تمہیں دیکھنا نہیں
چاہتا ، زید کہتا ہے میرے لیے نہیں ، کبھی
اپنے کام سے تو دروازہ کھولے گا ، بس ہم دیدار کرلیں گے ، یہ عشق ہے۔
خواجہ
باقی بااللہ نے اپنے دوست نانبائی سے کہا مانگ کیا مانگتا ہے، نانبائی گویا ہوا ،
اپنے جیسا بنالے، خواجہ صاحب نے اپنے اور نانبائی کے سر پر رومال ڈالا ، رومال
ہٹاتو دونوں ہم شکل تھے اور نانبائی فوت ہوگیا ، یہ عقیدت ہے۔ ایسے لوگ جو عشق میں
سوخت ہوجاتے ہیں مرنے کے بعد بھی عشق کی چنگاریاں ان کے نفوس کو سلگائے رکھتی ہیں
اور جو لوگ عالم ناسوت میں عقیدت میں فنا ہوجاتے ہیں آخرت اور دنیا ان کے لیے ایک
مملکت کے دو نام ہوتے ہیں۔
Khwaja Shamsuddin Azeemi
ان
کالم میں قارئین کے جسمانی، معاشی اور معاشرتی مسائل کے علاوہ بہت ہی زیادہ علمی اور
تفکر طلب سوالات بھی ہوتے تھے۔ جن میں پیراسائیکالوجی کے ٹاپک پربہت سے سولات ہیں۔
میں نے ان کالمز میں سے تقریباَ 125 سوالات جوکہ پیراسائیکالوجی اور علمی نوعیت کے
تھے کو الگ کرکے کتابی صورت دی۔ تاکہ یہ علمی ورثہ ماضی کی تہہ میں دفن نہ ہوجائے
، علم دوست لوگوں تک ان کو پہنچایا جائے اور مرشد کریم کے علوم کا ذخیرہ محفوظ
ہوسکے۔