Topics
سوال :
قرآن پاک کی سورۃ التین کی آیت ہے کہ ہم نے انسان کو بہترین صناعی کے
ساتھ تخلیق کیا اور پھر پھینک دیا اسفل السافلین میں یعنی اللہ تعالیٰ نے اس دنیا
کو سب سے گِرا ہوا مقام قرار دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ انسان جیسی بہترین صناعی کو
اللہ تعالیٰ نے اسفل السافلین میں کیوں پھینک دیا اور انسان کا اصل مقام کیا ہے
۔ نیز انسان اسفل السافلین میں رہتے ہوئے
کس طرح اللہ تعالیٰ کی قربت حاصل کرسکتا ہے؟
جواب : اللہ
تعالی ٰ نے آدم سے ارشاد فرمایا ’’اے
آدم تم اپنی بیوی کے ساتھ جنت میں سکونت اختیار کرو اور جہاں سے دل چاہے کھاؤ پیو خوش ہوکر لیکن اس درخت کے قریب مت جانا اور
اگر تم نے حکم عدولی کی تو تمھارا شمار ظالموں میں سے ہوگا‘‘۔ آدم نے جب تک حکم عدولی نہیں کی وہ جنت کی
نعمتوں سے مستفیض ہوتے رہے اور جب نافرمانی کے مرتکب ہوئے تو جنت کی فضاء نے انہیں
رد کردیا اور وہ اسفل السافلین میں پھینک دیے گئے۔ ’’ اور ہم نے آدمی کو بہترین
صناعی کے ساتھ تخلیق کیا اور پھینک دیا اسفل السافلین میں ‘‘ قرآن۔
انسان
کے اندر دو دماغ کام کرتے ہیں ایک دماغ جنتی دماغ ہے، یعنی آدم کی وہ حیثیت جب وہ
نافرمانی کے مرتکب نہیں ہوئے تھے اور دوسرا اسفل السافلین کا دماغ جو نافرمانی کے
بعد وجود آیا۔ اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے اختیارات کے تحت جنت میں آدم کے اندر صرف
ایک دماغ تھا ، جس کا شیوہ ، فرمانبردار ہوکر زندگی گزارنا تھااور جب آدم اپنا
اختیار استعمال کرکے نافرمانی کا مرتکب ہو ا تو اس دماغ کے ساتھ ایک ذیلی دماغ
وجود میں آگیاجو نافرمانی اور حکم عدولی کا دماغ قرار پایا ۔ جب تک آدم اور حوا
جنت کے دماغ کی حدود میں زندگی گزارتے رہے وہ ٹائم اینڈ اسپیس کی قید سے آزاد رہے
۔ لیکن جب انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے خلاف عمل کیا تو ان کے اوپر ٹائم اینڈ
اسپیس مسلط ہوگیا یعنی آزاد ذہن قید و بند اور صعوبت کی بلاؤ ں میں گرفتار ہوگیا
۔ ٹائم اینڈ اسپیس کی قید میں زندگی گزارنے کے لیے اس نے پہلے اصول و ضوابط مرتب
کرلیں مثلاً بھوک و پیاس کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے کھتی باڑی کا اہتمام اور
محنت و مشقت کے ساتھ انتظار کی زحمت کو بھی گلے لگانا پڑا۔ جب کہ جنت میں اس کے
لیے انتظار نام کی کوئی شئے نہیں تھی۔
آدم
نے اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی غلطی کا اعتراف کیا اور عفو و درگزر کی درخواست پیش
کی ۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ۔ ہم اپنے بندے بھیجتے رہیں گے جو تمھیں صراط
مستقیم کی ہدایت کریں گے اور جو لوگ ان برگذیدہ پیغمبروں کی ہدایت پر عمل پیرا
ہونگے ہم انہیں ان کا اصل وطن جنت دوبارہ عطا فرما دیں گے۔ آدم جنت میں اللہ
تعالیٰ کی نافرمانی کے مرتکب ہوئے تو اللہ تعالیٰ سے ربط قائم نہ رہاجو نافرمانی
کے ارتکاب سے پہلے تھا چونکہ یہ ربط (عارضی طور پر) ٹوٹ گیا تھا اس لیے جنت کے
دماغ نے انہیں رد کردیا ۔لہذا ہمیں اس دماغ کو حاصل کرنے کے لیے جو ٹائم اینڈ
اسپیس سے آزاد ہے وہ ہی طریقہ اختیار کرنا ہوگا جس طریقے سے ہم نے اس دماغ کو
کھویا تھا۔ یعنی ہم اپنے اختیار کے ساتھ اس دماغ کو رد کردیں جس کی حدود میں رہ کر
ہم آزاد دماغ سے دور ہیں اور جس حدود کے تعین سے ہمارا وہ ربط قائم نہیں رہا جو
جنت میں تھا۔
اس
ربط کو قائم کرنا اور تلاش کرنا قرآن پاک کی زبان میں قیام الصلوۃ ہے ۔ اللہ
تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ’’ قائم کرو
صلوۃ‘‘ یعنی اللہ کے ساتھ اپنا ربط اور
تعلق قائم کرو ایسا ربط جو زندگی کے ہر حال و قال میں قائم رہے۔ انبیاء کرام کی
تعلیمات کی بنیاد ہی یہی ہے کہ انسان اس دنیا میں رہ کر اللہ تعالیٰ کو پہچانے اور
اللہ تعالیٰ سے ربط و تعلق قائم کرے۔ حضور سرور کونین علیہ الصلوۃ السلام کی آمد
کے ساتھ نبوت ختم ہوچکی ہے مگر اللہ تعالیٰ کا قانون جاری و ساری ہے اور آج کے
دور میں حضور ﷺ کے علم کے وارث اولیا اللہ
، علما ء نوع انسانی کو انبیاء اکرام کی
تعلیمات کے اصل مفہوم سے روشناس کرانے میں سرگرم عمل ہیں۔
Khwaja Shamsuddin Azeemi
ان
کالم میں قارئین کے جسمانی، معاشی اور معاشرتی مسائل کے علاوہ بہت ہی زیادہ علمی اور
تفکر طلب سوالات بھی ہوتے تھے۔ جن میں پیراسائیکالوجی کے ٹاپک پربہت سے سولات ہیں۔
میں نے ان کالمز میں سے تقریباَ 125 سوالات جوکہ پیراسائیکالوجی اور علمی نوعیت کے
تھے کو الگ کرکے کتابی صورت دی۔ تاکہ یہ علمی ورثہ ماضی کی تہہ میں دفن نہ ہوجائے
، علم دوست لوگوں تک ان کو پہنچایا جائے اور مرشد کریم کے علوم کا ذخیرہ محفوظ
ہوسکے۔