Topics

اللہ تعالیٰ نے انسانوں اور حیوانوں کی روح میں کیا فرق رکھا ہے

علم حصولی               

سوال  :  انسانوں اور حیوانوں کی زندگی میں فرق دیکھا جائے تو دونوں میں نوعوں کے محسوسات ایک ہی نظر آتے ہیں، یعنی بھوک انسانوں کو لگتی ہے اور حیوانوں کو بھی، سونے، جاگے اور تولیدی سلسلے میں انسان اور حیوان دونوں برابر نظر آتے ہیں۔ مگر انسانی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ انسان اپنی دلچسپیوں کو بدلتا رہتا ہے یعنی پہلے انسان غاروں میں رہتا تھا پھر جھونپڑوں میں اور مکانوں سے ہوتا ہوا محلا ت نما مکان میں رہنے لگا ہے۔  پتو ں سے بدن ڈھانپتے ڈھانپتے اعلیٰ قیمتی ملبوسات پہننے لگاہے۔ مگر حیوانات کے رہن سہن میں جمود نظر آتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں اور حیوانوں کی روح میں کیا فرق رکھا ہے جس سے ان دونوں نوعوں کی تہذیب جدا جدا نظر آتی ہے؟

جواب  :  دنیا میں ہزاروں لاکھوں انسان بستے ہیں۔ ہر انسان دوسرے کی زندگی سے ناواقف ہے یعنی ہر انسان کی زندگی راز ہے جس کو دوسرے نہیں جانتے ۔ اس راز کی بدولت ہر انسان اپنی غلطیوں کو چھپائے ہوئے خود کو بہتر پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے اور مثالی بننا چاہتا ہے۔ اگر اس کی غلطیاں لوگوں کے سامنے ہوتی تو پھر وہ خود کو بہتر ظاہر کرنے کی کوشش نہ کرتا اور زندگی کا ارتقاء عمل میں نہ آتا۔

                انسانی زندگی کی ساخت میں کچھ ایسے عناصر استعمال ہوئے ہیں جو شعور کی نگاہ سے پوشیدہ ہیں اور شعور کو مثالی یا اعلیٰ زندگی کی طرف مائل کرتے ہیں۔ گویا اخفاء ایسی حقیقت ہے جس کو ارتقاء کا نام دیا جاسکتا ہے۔ انسانی ساخت کی یہی خصوصیت اسے جانوروں سے ممتاز کرتی ہے۔ لیکن حیوانی زندگی کے عناصر حیوان کے شعور سے مخفی نہیں ، ہر ایک حیوان کے اعمال متعین ہے جن کو اس کا شعور پوری طرح جانتا ہے  اس ہی کے باعث ایک جانور خود کو کسی دوسرے جانور سے بہتر ظاہر کرنے کی کوشش نہیں کرتا۔

                انسانی ساخت کا یہ شعوری امتیاز ہی تمام علوم و فنون کا مخرج ہے۔ انسان کا یہی شعوری امتیاز ، انسان کو لاشعور سے جدا کرتا ہے۔ یہیں سے انسان ایسی حدیں قائم کرتا ہے جو علم حضوری کے اجزا سے ایک علم کی داغ بیل ڈال دیتی ہے ۔ یہی علم تمام طبعی علوم کا مجموعہ ہے۔ روحانیت میں اس کو علم حصولی کہتے ہیں ۔ اس علم کے خدوخال زیادہ تر قیاسات اور مفروضات پر مشتمل ہوتے ہیں اور انسان اس علم کی ہی بنیاد پر زندگی گزارنے کی کوشش کرتا ہے۔

Topics


Usoloo


ان کالم میں قارئین کے جسمانی، معاشی اور معاشرتی مسائل کے علاوہ بہت ہی زیادہ علمی اور تفکر طلب سوالات بھی ہوتے تھے۔ جن میں پیراسائیکالوجی کے ٹاپک پربہت سے سولات ہیں۔ میں نے ان کالمز میں سے تقریباَ  125  سوالات جوکہ پیراسائیکالوجی اور علمی نوعیت کے تھے کو الگ کرکے کتابی صورت دی۔ تاکہ یہ علمی ورثہ ماضی کی تہہ میں دفن نہ ہوجائے ، علم دوست لوگوں تک ان کو پہنچایا جائے اور مرشد کریم کے علوم کا ذخیرہ محفوظ ہوسکے۔