Topics

نسمہ کیا ہے

     

سوال   ؛  آپ نے اپنے کالم میں لکھاتھا کہ زندگی کی بنیاد روشنیوں پرہے اور مادی جسم یا گوشت پوست کا جسم ان روشنیو ں کے تنزل سے وجود میں آتا ہے۔  اس سلسلے میں آپ نے لفظ  ’’ نسمہ‘‘  استعمال کیا تھا۔ مضمون کے تسلسل کے اعتبار سے تو اس لفط کے معانی اور مفہوم میں نے اخذ کرلئے تھے لیکن نسمہ کیا ہے؟  اِس کو عنوان بنا کر آپ دوبارہ لکھیں تو امید ہے کہ اس کی مزید تفہیم ہوجائے گی۔

جواب  :   کائنات کی ساخت میں بساط اول وہ روشنی ہے جس کو قرآن پاک نے  ’’ماء‘‘  (پانی)  کے نام سے یاد کیا ہے،  موجودہ دور کی سائنس میں اس کو گیسوں کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے،  نسمہ کا انہی صدہا گیسوں کے اجتماع سے اولاً جو مرکب بنا ہے اس کو پارہ یا پارہ کی مختلف شکلیں بطور مظہر بنا کرپیش کرتی ہیں،  ان ہی مرکبات کی بہت سی ترکیبوں سے مادی جسم کو موالید ثلاثہ یعنی حیوانات ، نباتات اور جمادات کہتے ہیں،  تصّوف کی زبان میں ان گیسوں میں سے ہر گیس کی ابتدائی شکل کا نام نسمہ ہے۔  دوسرے الفاظ میں نسمہ حرکت کی ان بنیادی شعاعوں کے مجموعہ کا نام ہے جو وجود کی ابتداء کرتی ہیں، حرکت اِس جگہ ان لکیروں کو کہا گیا ہے جو خلّاء میں اس طرح پھیلی ہوئی ہیں کہ وہ نہ تو ایک دوسرے سے فاصلے پر ہیں اور نہ ہی ایک دوسرے میں پیوست ہیں۔ یہی لکیریں مادی اجسام میں آپس کے رابطہ کا واسطہ ہیں، ان لکیروں کو صرف شہود کی آنکھ ، وہ آنکھ دیکھ سکتی ہے جو روح کی نگاہ کہلاتی ہے۔کوئی بھی مادی خوردبین اِس کو کسی شکل وصورت میں نہیں دیکھ سکتی،  البتہ لکیروں کے اثرات کو مادیت یا مظہر کی صورت میں پاسکتی ہے۔  انہی لکیروں کو اہل شہود کی تحقیق میں تمثل کی نمود کہا جاتا ہے۔

جب اسکول میں لڑکوں کو ڈرائنگ سیکھائی جاتی ہے تو ایک کاغذ جس کو گراف پیپر کہتے ہیں ڈرائنگ کی اصل شکل میں استعمال ہوتا ہے۔  اِس کاغذ پر چھوٹے چھوٹے چوکور خانے ہوتے ہیں،  ان چوکور خانوں کو بنیاد قرار دے کراستاد یہ بتاتے ہیں کہ ان چھوٹے خانوں کی اتنی تعداد آدمی کا سر ، اتنی تعداد سے ناک اور اتنی تعداد سے منہ اور اتنی تعداد سے گردن بنتی ہے۔ ان خانوں کے ناپ سے وہ مختلف اعضاء کی ساخت کا تناسب قائم کرتے ہیں، جس سے لڑکوں کو تصویر بنانے میں آسانی ہوتی ہے۔  اس گراف کو ترتیب دینے سے تصویر بن جاتی ہے۔ بالکل اسی طرح نسمہ کی یہ لکیریں تمام مادی اجسام کی ساخت میں اصل کا کام دیتی ہیں،  انہی لکیروں کی ضرب و تقسیم موالید ثلاثہ کی ہیئتیں بناتی ہیں۔ لوح محفوظ کے قانون کی رو سے دراصل یہ لکیروں یا بے رنگ شعاعیں چھوٹی بڑی حرکات ہیں،  ان کا جتنا اجتماع ہوتا جائے گا،  اتنی ہی اسی طرز کی ٹھوس حسیات ترکیب پاتی جائیں گی۔  ان ہی کی اجتماعت سے رنگ اور کشش کی طرزیں کام کرتی ہیں اور ان لکیروں کی حرکات اور گردش وقفہ پیدا کرتی ہیں۔ ایک طرف ان لکیروں کی اجتماعیت مکانیت بناتی ہے اور دوسری طرف ان لکیروں کی گردش زمانیت تخلیق کرتی ہے،  نسمہ کی یہ لکیریں تشخص (مادی ہیت) سے پہلے جس ہیئت کی تخلیق کرتی ہیں، اس ہیئت کا نام تصّوف کی زبان میں ’’  تحقق ‘‘  ہے، جس کو تمثیل بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ہیئت دراصل مفرد ہے ،  لوح محفوظ کے قانون میں نسمہ کی وہ شباہت جس کو مادی نہیں دیکھ سکتی۔ ہیئت مفرد، تحقق،  یا تمثیل کہلاتی ہے اور نسمہ کی وہ شکل و صور ت جس کو مادی آنکھ دیکھ سکتی ہے ہیئت مرکب، تشخص یا جسم کہلاتی ہے۔ جب ہیئت مفرد اجتماعیت کی صورت میں اقدام کرکے اپنی منزل تک پہنچ جاتی ہے تو ہیئت مرکب ہوجاتی ہے، گویا ابتدائی حالت ہیئت مفرد ہے اور انتہائی حالت ہیئت مرکب ہے، ابتداء کی حالت کو روح کی آنکھ اور انتہائی حالت کو جسم کی آنکھ دیکھتی ہے۔

                جسم کی طرح تمثیل میں میں بھی ابعاد یعنی  Diminsions  ہوتے ہیں اور روحانی آنکھ ان ابعاد کے طول و عرض کومشاہدہ ہی نہیں کرتی بلکہ ان کی مکانیت کو محسوس بھی کرتی ہے۔ صوفیاء حضرات اسی تمثیل کو ہیولیٰ کہتے ہیں۔ دراصل یہ محسوسات کا ڈھانچہ ہے جس میں وہ تمام اجزائے ترکیبی موجود ہوتے ہیں جن کا ایک قدم آگے بڑھنے کے بعد جسمانی آنکھ اور جسمانی لامسہ باقاعدہ احساس کرتا ہے، کسی چیز کی موجودگی پہلے ایک تمثیل یا ہیولیٰ کی شکل وصورت میں وجود پذیر ہوتی ہے۔یہ ہیولیٰ نسمہ مفرد کی ترکیبی ہیئت ہے اِس کے بعد دوسرے مرحلے میں نسمہ مفرد جب نسمہ مرکب کی شکل اختیار کرتا ہے تو اس حرکت میں انتہائی سستی اور جمود پیدا ہوجاتا ہے ۔ اس ہی سستی اور جمود کا نام ٹھوس حسیں ہیں۔

Topics


Usoloo

Khwaja Shamsuddin Azeemi


ان کالم میں قارئین کے جسمانی، معاشی اور معاشرتی مسائل کے علاوہ بہت ہی زیادہ علمی اور تفکر طلب سوالات بھی ہوتے تھے۔ جن میں پیراسائیکالوجی کے ٹاپک پربہت سے سولات ہیں۔ میں نے ان کالمز میں سے تقریباَ  125  سوالات جوکہ پیراسائیکالوجی اور علمی نوعیت کے تھے کو الگ کرکے کتابی صورت دی۔ تاکہ یہ علمی ورثہ ماضی کی تہہ میں دفن نہ ہوجائے ، علم دوست لوگوں تک ان کو پہنچایا جائے اور مرشد کریم کے علوم کا ذخیرہ محفوظ ہوسکے۔