Topics
سوال :
روحانیت کے راستے پر چلنے والے طالب علموں کے اندر کس قسم کی طرز فکر ہونی چاہئے
کہ وہ ارتقائی منازل طے کرسکیں؟
جواب :
روحانیت کے راستے پر چلنے والے سالک کے اندر یہ طرز فکر ضروری ہے کہ وہ
اپنے تمام معاملات اللہ پر چھوڑ دے۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے کہ ’’وہ لوگ جو راسخ فی العلم ہیں کہتے ہیں ہمارا
ایمان ہے کہ ہر چیز اللہ کی طرف سے ہے ‘‘
یہ ہی وہ اصل طرز فکر ہے جو انسان کے اندر استغنا پیدا کرتی ہے۔ استغنا کا
مطلب یہ ہے کہ اپنی پوری زندگی کے معمولات
( Routine) روٹین
کے طور پر کریں، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہی کہ انسان ہاتھ پیر توڑ کر بیٹھ جائے،
کوشش اور جدوجہد اس پر لازم ہے، کوشش اور جد وجہد کے بعد نتیجہ پر اس کی نظر نہیں
ہونی چاہئے بلکہ نتائج اللہ پر چھوڑ دے۔جو بھی کچھ ہورہا ہے یا ہم کررہے ہیں وہ سب
اس لیے کر رہے ہیں کہ اللہ ایسا چاہتا ہے ، روحانیت میں اس بات کو ذہن نشین کرادیا
جاتا ہے کہ انسان کی زندگی اور زندگی کے تمام اعمال و اشغال سب من جانب اللہ ہیں۔
اس کی نظر عذاب، ثواب، توقع، صلہ و ستائش پر نہیں ہوتی وہ برائیوں سے اس لیے بچتا
ہے کہ یہ عمل اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہے، اچھائیوں کو اس لیے اختیار کرتا ہے کہ اس
سے اللہ خوش ہوتے ہیں ۔
عذاب
و ثواب کا جب تذکرہ آتا ہے تو اس میں ڈر، خوف، دہشت ، ہیبت اور آرام و آسائش
اور آسانیاں پیش نظر ہوتی ہیں۔ کسی سالک کے لیے یہ طرز فکر زہر قاتل ہے اس طرز
فکر کا بندہ روحانیت میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا ۔ اس کے دل میں اللہ کا خوف نہیں
ہوتا اس لیے کہ اللہ تعالی کی ذات سراپا محبت ہے، جہاں ڈر آجاتا ہے وہاں دوری
واقع ہوجاتی ہے اللہ سے ڈرنے کا مطلب ہے انسان اللہ سے دور ہوگیا ۔اللہ تعالی سے
محبت کا منشاء یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ سے قریب ہو۔
انسان
کی ذہنی طرز فکر ماحول سے بنتی ہے ، جس قسم کا ماحول ہوتا ہے، اس ماحول میں تمام
اعمال نقوش درو بست یا کم وبست ذہن پر رقم ہوجاتے ہیں ۔ جس حد تک یہ نقوش ہلکے یا
گہرے ہوتے ہیں اس مناسبت سے انسان کی زندگی کی ایک نہج بن جاتی ہے۔ اگر کوئی بچہ
ایسے ماحول میں پرورش پا رہا ہے جہاں والدین اور اس کے ارد گردماحول کے لوگ ذہنی
پیچیدگی ، بددیانتی اور ان اعمال کے عادی ہوں جو معاشرے کے لیے ناقابل قبول اور
ناپسندیدہ ہیں تو وہ بچہ لازمی طور پر و ہی ماحول قبول کرے گا۔ اسی طرح اگر بچے کا
ماحول پاکیزہ ہے تو وہ پاکیزہ نفس ہوگا، عام مشاہدہ ہے کہ بچہ و ہی زبان سیکھتا ہے
جو ماں باپ بولتے ہیں اور و ہی عادات و اطوار اختیار کرتا ہے جو والدین سے بطور
ورثہ منتقل ہوتے ہیں ۔ قانون یہ ہے کہ بچہ کا ذہن آدھا والدین کا ورثہ ہوتا ہے
اور آدھا ماحو ل کے زیر اثر بنتا ہے۔ یہ مثال بچوں کے لیے مخصوص نہیں اس میں
افراد اور قوموں پر بھی یہ قانون لاگو ہوتا ہے۔ ابتدائے آفرنیش تا ایں دم تحریرجو
کچھ ہوچکا ہے ، ہورہا ہے یاآئندہ ہوگا سب کا سب نوع انسانی کا ورثہ ہے، یہ ورثہ
قوموں اور افراد میں منتقل ہوتا رہتا ہے اسی کو ارتقا کہتے ہیں۔
مختصر
اً کسی روحانی طالب علم کو یہ ذہن نشین کرلینا چاہے کہ طرز فکر دو ہیں، ایک طرز
فکر بندے کو اپنے خالق سے قریب کرتی ہے اور دوسری طرز فکر بندے کو خالق سے دور
کرتی ہے۔ ہم جب کسی انعام یافتہ شخص سے قربت حاصل کرتے ہیں جس کو وہ طرزفکر حاصل
ہے جو خالق سے قریب کرتی ہے تو قانون کے مطابق ہمارے اندر وہ ہی طرز فکر کام کرنے
لگتی ہے اورہم جس حد تک اس انعام یافتہ شخص سے قریب ہوجاتے ہیں۔ اتنی ہی اس کی طرز
فکر ہمیں حاصل ہوجاتی ہے اور انتہا یہ ہے کہ دونوں کی طرز فکر ایک بن جاتی ہے۔
Khwaja Shamsuddin Azeemi
ان
کالم میں قارئین کے جسمانی، معاشی اور معاشرتی مسائل کے علاوہ بہت ہی زیادہ علمی اور
تفکر طلب سوالات بھی ہوتے تھے۔ جن میں پیراسائیکالوجی کے ٹاپک پربہت سے سولات ہیں۔
میں نے ان کالمز میں سے تقریباَ 125 سوالات جوکہ پیراسائیکالوجی اور علمی نوعیت کے
تھے کو الگ کرکے کتابی صورت دی۔ تاکہ یہ علمی ورثہ ماضی کی تہہ میں دفن نہ ہوجائے
، علم دوست لوگوں تک ان کو پہنچایا جائے اور مرشد کریم کے علوم کا ذخیرہ محفوظ
ہوسکے۔