Topics

علم القلم کیا ہے

   

سوال  :  تصوف کی کتب میں چھ لطائف کا اکثر تذکرہ ملتا ہے ۔ آپ سے درخواست ہے کہ یہ بتائیں لطیفہ کیا ہوتا ہے؟  کیا لطیفہ روح کا جز و ہوتا ہے یا روح سے علیحدہ کوئی چیز ہے ؟ نیز روح اور لطیفہ میں کیا ربط ہے؟

جواب  :  اس سے پہلے کہ یہ تشریح کی جائے کہ لطیفہ کیا ہوتا ہے ؟اور روح اور لطیفہ میں کیا ربط ہوتا ہے ؟  یہ ضروری ہے کہ زندگی کی تشریح بیان کی جائے۔ یہ کائنات اپنی شکل وصورت اور ہر ایک حرکت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے علم میں موجود تھی۔ جس علم میں کائنات موجود تھی اللہ تعالیٰ کے اس علم کو واجب یا علم القلم کہتے ہیں  علم القلم کو ذات کا عکس بھی کہتے ہیں ۔ ذات کا عکس اللہ تعالیٰ کی ایک صفت ہے، علم واجب کے بعد اللہ تعالیٰ کی صفات ایک قدم اور تنزل کرتی ہیں تو عالم واقعہ بن جاتی ہے۔یہ وہ عالم کہلاتا ہے جب اللہ تعالیٰ نے ظہور تخلیق کا ارادہ فرمایا اورلفظ  ’کن‘  کہہ کر اپنے ارادے کو کائنات کی شکل بخشی ،  دراصل اراد ہ ہی ازل کی صامت ہیں،  موجودات کی شکل کو روحانیت کی زبان میں علم وحدت، کلیات یا علم لوح محفوظ کہتے ہیں۔  جب اللہ تعالی ٰ کویہ منظورہوا کہ موجودات کا سکوت ٹوٹے اور حرکت کا آغاز ہو تو اللہ تعالیٰ نے موجودات کو مخاطب کرکے ارشاد فرمایا  ’الست بربکم‘  ۔  یہ پیغام سن کر موجودات کا ہر فرد متوجہ ہوگیا اور اس میں شعور پیدا ہوگیا  اور اس شعور نے  ’  بلی ٰ  ‘  کہہ کر اللہ تعالیٰ کے ربّ ہونے کا اقرار کرلیا۔ عالم واقعہ کی پہلی شکل تھی۔  اشیائے موجودات میں جب حرکت کی ابتداء  ہوئی تو عالم واقعہ کی دوسری شکل کا آغاز ہوگیا ،  اِسی شکل کو عالم مثال یا  ’جو  ‘  کہتے ہیں۔

                درج بالا تشریح سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مخلوق کی ساخت میں روح کے تین حصے ہوتے ہیں، 

۱)روح اعظم،             ۲)روح انسانی،            ۳)روح حیوانی۔

روح اعظم علم واجب ( علم القلم) کے اجزا سے مرکب ہے،  روح انسانی علم واقعہ ( لوح محفوظ) کے اجزا سے بنتی ہے،  روح حیوانی  ’جو‘  (عالم مثال ) کے اجزا ے ترتیبی پر مشتمل ہے۔ روح اعظم کی ابتدا لطیفہ اخفیٰ اور انتہا لطیفہ خفی ہے، یہ روشنی کا دائرہ ہے جس میں کائنات کی غیب کی تمام معلومات نقش ہوتی ہیں،  یہ ہی وہ معلومات ہیں جو ازل سے ابد تک کے واقعات کے متین حقیقی کی حیثیت رکھتی ہیں، اس دائرہ میں مخلوق کی مصلحتوں اور اسرار کا ریکارڈ محفوظ ہے۔ اس کو تصوف کی زبان میں ثابتہ اور عام زبان میں تحت لاشعور کہتےہیں ۔

                روح انسانی کی ابتدا لطیفہ سرّی ہے اور انتہا لطیفہ روحی ہے،  یہ بھی روشنی کا ایک دائرہ ہے ، اس دائرے میں وہ احکامات نقش ہوتے ہیں جو زندگی کا کردار بنتے ہیں۔  تصوف میں اس دائرے کا  نام  ’ اعیان‘  اورعام زبان میں اسے لاشعور کہتے ہیں۔  تیسرا روح حیوانی کی ابتدا لطیفہ قلبی  اور انتہا لطیفہ نفسی ہے ،  یہ روشنی کا تیسرا دائرہ ہے ،  اس کا نام  ’  جویہ  ‘ ہے،  عمومی لفظوں میں اسے شعور کہا جاتا ہے۔ عمل کے وہ دونوں حصے جن میں اللہ تعالیٰ کے احکام کے ساتھ جن و انس کا اختیار بھی شامل ہے اس دائرہ میں جز و در جز نقش ہوتے ہیں۔

                روشنی کے تینوں دائرے ، تین اوراق کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ پیوست ہوتے ہیں، ان کا مجموعی نام روح، امرربی، جزو لاتجزاء  یا انسان ہے۔ لطیفہ اس شکل و صورت کا نام ہے جو اپنے خدو خال کے ذریعے معنی کا انکشاف کرتا ہے۔  مثلاً شمع کی لو ایک ایسا لطیفہ ہے جس میں اجالا،  رنگ،  اور گرمی تینوں ایک جگہ جمع ہو گئے ہیں( ان کی ترتیب سے ایک شعلہ بنتا ہے جو نظر آنے کی ایک شکل کا نام ہے)  ان تین اجزاء سے مل کر دکھائی دینے والی شکل کا نام شعلہ رکھا گیا ہے۔یہ شعلہ جن اجزاء کا مظہر ہے ان میں سے ہر جزو کو ایک لطیفہ کہیں گے۔      

                                                لطیفہ نمبر ۱ شعلہ کا اُجالا

                                                لطیفہ نمبر۲ شعلہ کا رنگ

                                                لطیفہ نمبر ۳ شعلہ کی گرمی

                ان تینوں لطیفوں کا مجموعی نام شمع ہے۔  جب کوئی شخص لفظ شمع استعمال کرتا ہے تو معنوی طور پر اس کی مراد تینوں لطائف کی یک جا ئی صورت ہوتی ہے۔ اس طرح انسان کی روح میں چھ لطیفے ہوتے ہیں، جس میں پہلا لطیفہ اخفی ٰ ہے،  دوسرا لطیفہ خفی ہے،  تیسرا لطیفہ سرّی ہے،  چوتھا لطیفہ روحی ہے،  پانچواں لطیفہ قلبی ہے اور چھٹا لطیفہ نفسی ہے۔  ان چھ لطیفوں کا مجموعی نام روح،  انسان، یا امر ربی کہلاتا ہے۔

Topics


Usoloo


ان کالم میں قارئین کے جسمانی، معاشی اور معاشرتی مسائل کے علاوہ بہت ہی زیادہ علمی اور تفکر طلب سوالات بھی ہوتے تھے۔ جن میں پیراسائیکالوجی کے ٹاپک پربہت سے سولات ہیں۔ میں نے ان کالمز میں سے تقریباَ  125  سوالات جوکہ پیراسائیکالوجی اور علمی نوعیت کے تھے کو الگ کرکے کتابی صورت دی۔ تاکہ یہ علمی ورثہ ماضی کی تہہ میں دفن نہ ہوجائے ، علم دوست لوگوں تک ان کو پہنچایا جائے اور مرشد کریم کے علوم کا ذخیرہ محفوظ ہوسکے۔