Topics

تصّوف کیا ہے؟

     

سوال  :   آپ تصّوف اور روحانیت کے موضوع پر جس انداز سے لکھتے ہیں اور جو کچھ لکھتے ہیں وہ ہم نے نہ اپنے بزرگوں سے سُنا اور نہ ان کی تحریروں میں پڑھاہے،  یہ ہی وجہ ہے کہ میں آپ کی تحریروں کو ذہنی طور پر قبول نہ کرسکا ہوں۔ شک اور یقین کے دوران پھنسا ہوا ہوں جو میرے لیے اب چیلنج بن گیا ہے؟

جواب  :   عزیزم تصّوف نور باطن ہے اور نور باطن نام ہے ایسے خالص ضمیر کا جس میں آلائش قطعاً نہیں ہوتی۔  یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم اپنے سامنے دیکھنے کی بجائے پیچھے دیکھتے ہیں،  اگر غور کیا جائے تو یہ بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ اگر پیچھے دیکھنا مقصود ہوتا تو آنکھیں پیشانی پر ہونے کی بجائے سر کے پچھلے حصے میں ہوتیں،  جہاں کہیں ہمارا ذہن الجھتا ہے ہم بجائے اس کے کہ جو کچھ ہماری آنکھوں کے سامنے ہے یا جو کچھ ہمارے تجربے میں ہے اس کی روشنی میں نتائج اخذ کریں،  ہم اپنے بزرگوں کے تجربات پر روشنی ڈالتے ہیں یا انہوں نے اپنے تجربات سے اپنے زمانے کی ترقی کے مطابق جو نتائج اخذ کئے ہیں انہیں اپنے لیے معراج سمجھ لیتے ہیں۔  اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہماری فہم محدود ہوجاتی ہے اور ہم زمانے کی ترقی کا ساتھ نہیں دے سکتے اور بالآخر وسوسوں اور تواہم کا شکار ہوکر نہ آگے بڑھتے ہیں نہ پیچھے ہٹتے ہیں، ساکت وجامد ہو جاتے ہیں۔

                سیدنا حضور اکرم  ﷺ کا ارشاد ِ عالی مقام ہے کہ علم سیکھو چاہے تمھیں چین جانا پڑے،  قرآن پاک کا ارشاد ہے کہ کوئی چھوٹی سی چھوٹی اور بڑی سے بڑی بات ایسی نہیں ہے جو قرآن پاک میں وضاحت کے سا تھ بیان نہ کردی گئی ہو،  یہ ہی وجہ ہے کہ قرآن پاک ہمیں تفکر کی دعوت دیتا ہے،  جو قومیں تفکر سے تہی دست ہوجاتی ہیں ،  قدرت ان سے سرداری چھین لیتی ہے اور وہ مفلوک الحال ہوکر غلامی کی زندگی بسر کرتی ہیں،  ہمارے اسلاف نے اپنے زمانے کی ترقی کے مطابق ہمیں قدم قدم آگے بڑھنے کے لیے روشنی دکھائی ہے جس طرح ہمارے اسلاف نے اپنی آنے والی نسلوں کے لیے اپنے خون سے چراغ روشن کئے ہیں ہمارے اوپر بھی لازم ہے کہ سائنسی دور کے تقاضوں کے تحت علمی برتری حاصل کرنے کے لیے اپنی نسل کو بصیرت کی راہ دکھائیں۔

Topics


Usoloo

Khwaja Shamsuddin Azeemi


ان کالم میں قارئین کے جسمانی، معاشی اور معاشرتی مسائل کے علاوہ بہت ہی زیادہ علمی اور تفکر طلب سوالات بھی ہوتے تھے۔ جن میں پیراسائیکالوجی کے ٹاپک پربہت سے سولات ہیں۔ میں نے ان کالمز میں سے تقریباَ  125  سوالات جوکہ پیراسائیکالوجی اور علمی نوعیت کے تھے کو الگ کرکے کتابی صورت دی۔ تاکہ یہ علمی ورثہ ماضی کی تہہ میں دفن نہ ہوجائے ، علم دوست لوگوں تک ان کو پہنچایا جائے اور مرشد کریم کے علوم کا ذخیرہ محفوظ ہوسکے۔