Topics

قرب نوافل

پیراسائیکالوجی  (قرب نوافل)    

سوال  :   تصّوف کی کتابوں میں ایک اصطلاح  ’’ قرب نوافل ‘‘ کا عام تذکرہ ملتا ہے،  قرب نوافل سے کیا مراد ہے؟ اور انسان کس طرح قرب نوافل سے اللہ تعالیٰ کا عرفان حاصل کرسکتا ہے؟

جواب  :  تصّوف اور روحانیت کے بارے میں کچھ لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ حضور  ﷺ  کے زمانے میں صحابہ کرامؓ نے روحانی علوم یا تصوّف کی تدوین نہیں کی ، چونکہ صحابہ کرامؓ کے زمانے میں روحانی علوم کی تدوین نہیں ہوئی جن کو سند مان کر روحانیت اور تصوّف کو تسلیم کیا جائے، اس لیے تصوّف کی کوئی حیثیت نہیں، کچھ لوگ تصوّف اور روحانیت کے بارے میں یہ تصور کرتے ہیں کہ یہ ایسا علم ہے جس میں دنیاوی لذتوں سے منہ موڑ لیا جائے  اور گوشہ نشینی اختیار کرلی جائے،  موجودہ دورمیں ہر چیز دلائل کے ذریعے سمجھی جاتی ہے اس لیے ان سوالات کا سمجھنا بھی ضروری ہے، دراصل انبیاء کرام علیہ لصلواۃ السلام کی طرز فکر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی تھی کہ انبیاء کے ذہن میں اللہ تعالیٰ کی صفات اور اللہ تعالیٰ کی ذات بے حد مستحکم ہوتی ہے اس کی وجہ ہے کہ انبیاء کرام کو اس بات کا ادراک حاصل تھا کہ کائنات اللہ تعالیٰ نے بنائی ہے ، اللہ کے حکم سے ہر چیز بنی ہے اور اللہ تعالیٰ کی صفات ہر لمحہ ہر قدم پر کائنات کو حیات نو عطاکررہی ہیں، اللہ تعالیٰ ہی کائنات کے مالک ہیں   کائنات کے خواہ نوری اجسام ہوں ، روحانی اجسام ہوں یا مادّی اجسام ہوں ان سب کو اللہ تعالیٰ ہر ہر لمحہ زندگی فراہم کررہےہیں۔

                جب انبیاء کرام کو اس بات کا ادراک ہوجاتا تھا  تووہ سمجھ جاتے تھے کہ کائنات اور کائنات کے افراد کے درمیان جو رشتہ ہے وہ بھی اللہ تعالیٰ ہی کی وجہ سے قائم ہے، انبیاء اکرام جب کسی چیز یا کسی فرد کے بارے میں سوچتے تھے یا رابطہ کرتے تھے توسب سے پہلے ان کا ذہن براہ راست اللہ کی طرف جاتا تھا پھر اس شئے کی طرف ، اس طرح مسلسل توجہ سے ان کا ذہن ان طرزوں کو اختیار کرلیتا تھا،کہ اختیاری اور غیر اختیاری طورپر وہ اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ رہتے تھے۔ رفتہ رفتہ اللہ کی صفات اور ذات ان کے ذہن پر اس طرح محیط ہوجاتی تھی کہ انہیں سوائے اللہ کے کچھ نظر نہ آتا تھا، اللہ ہی ان کی سماعت بن جاتا تھا ، اللہ ہی ان کے حواس بن جاتا تھا، یہ طرز فکر انبیاء کی ہے ۔ ایک طرزفکر یہ ہے کہ انسان اللہ کے بارے میں اور اللہ کی موجودگی کے بارے میں عملی طور پر یقین رکھتا ہو کہ اِ س یقین کو حضور  ﷺ  نے مرتبہ احسان کا نام دیا ہے،  یہ بات کہ صحابہ کرام ؓ کےزمانے میں روحانیت کے اوپر کوئی خاص تحریر نہیں مرتب ہوئی اس کی وجہ یہ کہ سیدنا حضور  ﷺ  کی موجودگی حضور  ﷺ پر مرمٹنے والے اور فدا ہونے والے صحابہ کرام ؓ کی روح حضور  ﷺ  کی محبت میں رنگین تھیں۔  وہ حضور ﷺ کے اعمال زندگی اور حضور  ﷺ کی ذات میں یکسوئی کے ساتھ غوروفکر کرتے رہتے تھے۔ اس غوروفکر سے حضور  ﷺ کے قریب رہنے والے حضرات کی روحانی پیاس بجھی رہتی تھی۔ صحابہ کرام ؓ  کو حضور  ﷺ کے اقوال میں بہت ذیادہ شغف تھا اور حضور  ﷺ کی گفتگو میں انہماک کی وجہ یہ بھی تھی کہ حضور  ﷺ کا ہر قول ہر عمل صحیح ادبیت اور ٹھیک ٹھیک مفہوم اور پوری گہرائیوں کے ساتھ ان کے اوپر واضح ہوتا رہتا تھا،  مطلب یہ کہ احادیث سُننے کے بعد صحابہ کرامؓ  ان کے صحیح صحیح مفہوم سے پورا پورا استفادہ کرتے تھے ، جس کی وجہ سے ان کی روح کے اندر انوارات کے ذخیرے بغیر کسی کوشش یا ریاضت کے ذریعے ہوجاتے تھے اور اس لیے وہ حضور  ﷺ کے قدسی الفاظ اور حضور  ﷺ کی نورانی کردار اور حضو ر ﷺ کے پیغمبرانہ ذہن سے بغیر کسی تعلیم ، بغیر کسی کوشش کے روشناس تھے، اس لیے اِس دور میں روحانی علوم کاتفصیلی ذکر نہ ہونا اسی وجہ سے ہے۔ صحابہ کرامؓ کے بعد جوں جوں زمانہ گزرتا گیا روح کے انوارات معدوم ہونے لگے یہاں تک تبع تابعین کے بعد لوگوں کو جو حضور  ﷺ سے بھرپور محبت رکھتے تھے،  انہیں قرآن پاک اور احادیث کے انوارات کی تشنگی محسوس ہونے لگی اور یہ محسوس کیا کہ اگر روحانی علوم کے قاعدے و قوانین اور ضابطے جو رسول اللہ  ﷺ سے منتقل ہوئے ہیں عام نہ کئے گئے تو امت مسلمہ میں بہت بڑا خلّاء واقع ہوجائے گا ،  لہذا انہوں نے رسول اللہ  ﷺ کے انوارکو اپنی روح میں ذخیرہ کرنے کے بعد اللہ کے عرفان حاصل کرنے کے ذرائع تلاش کئے پھر ضابطے اور قاعدے  بنائے ۔

                یہ ضابطے اور قاعدے علمی اعتبار سے بنائے گئے تھے تاکہ حضور  ﷺکا ہر امتی ہر شخص یہ علم حاصل کرکے رسول اللہ  ﷺ کے انوار سے اپنی روح کو لبریز کرے اور ان روحانی قدروں سے اللہ تعالیٰ کا عرفان حاصل ہوجائے ۔ چنانچہ شیخ نجم الدین کبریٰ اوران کے شاگرد شیخ شہاب الدین سہروردی، خواجہ معین الدین چشتی ایسے لوگ گزرے ہیں جنہوں نے علمی حیثیت میں اللہ تک رسائی کے مختلف طریقے اور لاشمار اختراعات ایجاد کیں۔  علمی حیثیت کے لیے اللہ کے ان اسماء اور قرآن پاک کی ان آیات کا انتخاب کیا گیا جس کے ورد سے ذہن انسانی میں زیادہ سے زیادہ نورانی ذخیرہ ہوجاتا ہے ۔ یہ چیزیں شیخ حسن بصری کے زمانے میں نہیں ملتی ، حسن بصری کے بعد ایسا دور آیا کہ حضور  ﷺ کی ذات بابرکت سے متعلق انوارات و تجلیات لوگوں کے ذہنوں سے دور ہونے لگیں اور اللہ کی صفات جاننے میں وہ انہماک نہیں رہا جو صحابہ کرامؓ  کے زمانے میں تھا۔

                لہذا علم تصوّف نے علمی حیثیت میں اللہ کے ان اسماء اور قرآن پاک کی آیات کا انتخاب کیا اور ورد کے مختلف طریقے ایجاد کئے ، یہ اس لیے کیا گیا کی جس طرح انبیاء اللہ سے ربط قائم کرتے تھے ، صحابہ کرامؓ ربط قائم کرتے تھے اس طرح تمام مسلمان بھی حضور  ﷺ سے اور اللہ سے ربط قائم کرے۔  اس ربط کو نسبت علمیہ کہتے ہیں اور اس کا نام قرب نوافل ہے۔

Topics


Usoloo

Khwaja Shamsuddin Azeemi


ان کالم میں قارئین کے جسمانی، معاشی اور معاشرتی مسائل کے علاوہ بہت ہی زیادہ علمی اور تفکر طلب سوالات بھی ہوتے تھے۔ جن میں پیراسائیکالوجی کے ٹاپک پربہت سے سولات ہیں۔ میں نے ان کالمز میں سے تقریباَ  125  سوالات جوکہ پیراسائیکالوجی اور علمی نوعیت کے تھے کو الگ کرکے کتابی صورت دی۔ تاکہ یہ علمی ورثہ ماضی کی تہہ میں دفن نہ ہوجائے ، علم دوست لوگوں تک ان کو پہنچایا جائے اور مرشد کریم کے علوم کا ذخیرہ محفوظ ہوسکے۔