Topics

مراقبہ کی تعریف

                         

سوال  :  میری آپ سے پرزُور اپیل ہے کہ اپنے مخصوص انداز میں ایک مرتبہ مراقبہ کی جامع تعریف شائع فرمادیں تاکہ روحانی شائقین کی تشنگی دور ہوسکے۔

جواب  :  مراقبہ ایک ایسی حالت کا نام ہے جس میں انسانی شعور آہستہ آہستہ لاشعوری واردات و کیفیات سے مغلوب ہوجاتاہے اور لاشعور یعنی روح کا شعور متحرک ہوجا تا ہے۔مختلف روحانی سلاسل میں مختلف مشقوں کے زریعے اس حالت کو بیدار کیا جاتا ہے۔ مراقبہ ایک ایسی کیفیت کا نام ہے جس میں زمان و مکان کی حد بندیاں نہیں ہوتی، زمان و مکان کی حد بندیاں ہی انسانی ارادے اور نیت میں خلل پیدا کرتی ہیں۔ انسانی زندگی دو حصوں پر منقسم ہے ایک حصہ بیداری اور دوسرا حصہ خواب۔ بیداری میں انسان زمان و مکان (Time & Space) کا پابند ہوتا ہے لیکن خواب میں انسان ان پابندیوں سے آزاد ہوجاتا ہے۔

                مراقبہ کے ذریعے خواب میں زمان و مکان سے آزاد کام کرنے والی صلاحیتیں بیداری میں منتقل ہوجاتی ہیں۔ سب سے پہلے مراقبہ میں اس بات کی کوشش کی جاتی ہے کہ انسان کے اوپر بیداررہنے کی حالت میں ایسی کیفیت طاری ہوجائے جو خواب سے قریب ترین ہے ۔ اس کا طریقہ یہ اختیار کیا گیا ہے کہ انسان اپنی نیت اور ارادے سے بیداری میں اپنے اوپر خواب کی زندگی طاری کرلے۔ مثلاً اندھیرا ہو، آنکھیں بند ہوں، جسم ڈھیلہ ہو، شعور بیداری کی جکڑ بندیوں سے آزاد ہو اور لاشعوری کیفیات کو قبول کرتا ہے۔ ذہن کسی ایک نقطہ پر مرکوز کرلیا جائے جو بظاہر سامنے نہیں ہے ، یہ مشق آہستہ آہستہ انسان کو اس مقام پر لے آتی ہے جہاں وہ خواب کی واردات کو بیداری کے حواس میں محسوس کرتا ہے اور اِس کا آخری درجہ یہ ہوتا ہے کہ لاشعوری تحریکات کو انسان اِسی طرح قبول کرنے لگتا ہے جس طرح وہ شعوری تحریکات کو قبول کرتا ہے۔

                اس سلسلے میں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ انسان کے اندر دو دماغ کام کرتے ہیں ایک دماغ وہ جو آدم کے اندر اسفل سافلین میں پھینکے جانے سے پہلے کام کرتا تھا اور دوسرا وہ دماغ ہے جو اسفل میں بنا اور اسفل میں کام کرتا ہے ، لیکن وہ دماغ جو جنت میں کام کرتا تھا وہ ختم نہیں ہوا، ہوتا یہ ہے کہ اسفل کا دماغ غالب رہتا ہے اور جنت کا دماغ مغلوب ۔ لیکن اس کی حرکات و سکنات ہر لمحہ اور ہرآن برقرار رہتی ہیں اور یہ حرکات و سکنات خواب میں سفر کرتی رہتی ہیں۔ لیکن مراقبہ کے ذریعے خواب کے حواس جب بیداری میں منتقل ہوجاتے ہیں تو یہ صورتحال الٹ جاتی ہے یعنی اسفل کا دماغ مغلوب ہوجاتا ہے اور جنت کا دماغ غالب آجاتا ہے ۔ لیکن اگر اسفل کا دماغ معطل ہوجائے تو انسان کے اوپر جذب طاری ہوجاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اس راستہ پر سفر کرنے والے سالک کواستاد کی ضرورت پیش آتی ہے۔ ایسا استاد جو اس راہ میں سفر کرکے منزل رسیدہ ہو اور اِس بات سے کماحقہ واقف ہو کہ سالک کی ذہنی استعداد کیاہے اور وہ جنت کے دماغ کی تحریکات کو کس حد تک قبول کرسکتا ہے ۔

                اِسی مناسبت سے وہ استاد ایسے اسباق تجویز کرتا ہے جو سالک کی ذہنی استعداد کے مطابق اس کی سکت کو بتدریج بڑھاتے رہیں۔ تصوف اور روحانیت کی زبان میں اس استاد کا نام  ’’شیخ‘‘ ہے۔ مراقبہ کا سب سے آسان طریقہ تصور شیخ ہے۔ آنکھیں بند کرکے ذہن کی تمام صلاحیتوں کو اس بات میں استعمال کیا جائے کہ شیخ ہمارے سامنے ہے اس سے پہلا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ مریدچونکہ شیخ سے واقف ہے اور اس کے ذہن میں شیخ کی شکل و صورت اور سیرت کا ایک عکس بھی موجود ہے اس لیے تصور کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔ جب ہم تصور شیخ کرتے ہیں تو خیالات کے ذریعے شیخ کی پاکیزگی کا اتنا غلبہ ہوجاتا ہے کہ تاریکی اور کثافت چھٹ جاتی ہے، جب تک دماغ کی سطح پر تاریکی اور کثافت باقی رہے گی کوئی سالک یا روحانی طالب علم روحانی سفر میں قدم نہیں بڑھا سکتا 

Topics


Usoloo

Khwaja Shamsuddin Azeemi


ان کالم میں قارئین کے جسمانی، معاشی اور معاشرتی مسائل کے علاوہ بہت ہی زیادہ علمی اور تفکر طلب سوالات بھی ہوتے تھے۔ جن میں پیراسائیکالوجی کے ٹاپک پربہت سے سولات ہیں۔ میں نے ان کالمز میں سے تقریباَ  125  سوالات جوکہ پیراسائیکالوجی اور علمی نوعیت کے تھے کو الگ کرکے کتابی صورت دی۔ تاکہ یہ علمی ورثہ ماضی کی تہہ میں دفن نہ ہوجائے ، علم دوست لوگوں تک ان کو پہنچایا جائے اور مرشد کریم کے علوم کا ذخیرہ محفوظ ہوسکے۔