Topics
سوال : آپ
نے اپنے کالم میں لکھا ہے کہ انسان کی زندگی اطلاعات پر قائم ہے ، اطلاعات تقاضوں کو جنم دیتی ہے اور تقاضوں کی
تکمیل سے زندگی آگے بڑھتی ہے، سوال یہ
پیدا ہوتا ہے کہ جب سب کواطلاع ایک ہی ملتی ہے تو یہ معتقدات اور نظریا ت میں تضاد
کیوں ہوتا ہے؟ اور انسان ایک طرز پرزندگی
کیوں نہیں گزارتے؟
جواب : جس
روشنی کے ذریعے ہماری آنکھیں دیکھتی ہیں ،
اس روشنی کی ۲
سطحیں ہیں، ایک سطح کے حواس میں ثقل اور
ابعاد دونوں شامل ہیں لیکن دوسری میں
ابعاد ہیں۔ ابعاد کی سطح اِسی روشنی کی گہرائی میں واقع ہے جو روشنی ہمیں اوپری
سطح کی اطلاعات دیتی ہے، حواس انہیں براہ
راست دیکھتے اور سنتے ہیں ۔ لیکن جو اطلاعات ہمیں نچلی سطح سے ملتی ہیں ان کی
وصولی کی راہ میں کوئی مزاحمت ضرور ہوتی ہے، یہ یہی وجہ ہے کہ حواس ان اطلاعات کی
پوری گرفت نہیں کرتے۔ دراصل جو اطلاعات ہمیں اوپری سطح سے موصول ہوتی ہیں وہی
اطلاعات نچلی سطح سے وصول ہونے والی اطلاعات کے راستے میں مزاحمت بن جاتی ہیں۔
گویا ایک طرح کی دیوار کھڑی ہوجاتی ہے یہ
دیوار اتنی سخت ہوتی ہے کہ ہمارے حواس کوشش کے باوجود اُسے پار نہیں کرسکتے۔
اوپر
ی سطح کی اطلاع دو قسم کی ہیں، (1) وہ
اطلاعات جو اغراض پر مبنی ہوں ، ان کے
ساتھ ہمارا رویہ جانبدار ہوتا ہے ۔
(2) وہ اطلاعات جو انفرادی مفاد
سے وابستہ نہیں ہوتیں ، ان کے حق میں
ہمارا رویہ غیر جانبدار ہوتا ہے۔ اطلاعات کی دونوں طرزوں کو سامنے رکھ کر غور کیا
جائے تو یہ حقیقت منکعشف ہوجاتی ہے کہ انسان کے پاس ادراک کے ۲ زاویے ہیں۔
ایک وہ زاویہ جو انفرادیت تک محدود ہے ، دوسرا وہ زاویہ جو انفرادیت کی حد
سے باہر ہو۔ جب انفرادیت کے اندر دیکھتے
ہیں تو کائنات شریک نہیں ہوتی لیکن جب انفرادیت سے باہر دیکھتے ہیں تو کائنات شریک
ہوتی ہے۔ جس زاویہ میں کائنات شریک ہے اس کے اندر ہم کائنات کی تمام اشیاء کے ساتھ
اپنا ادراک کرتے ہیں، ادراک کا یہ عمل بار بار ہوتا ہے ، اسی کو ہم تجرباتی دنیا
کہتے ہیں۔ ایک طرف کائنات کو اپنی انفرادی دنیا میں دیکھنے کے عادی ہیں ، دوسری طرف اپنی انفرادیت کائنات میں دیکھنے کے
عادی ہیں، ایک طرف انفرادیت کی ترجمانی
کرتے ہیں دوسری طرف کائنا ت کی۔
جب دونوں ترجمانیاں ایک
دوسرے سے ٹکراتی ہیں تو انفرادیت کی ترجمانی کو غلط ثابت کرنے کے لیے تاویل کا
سہارا لینا پڑتا ہے۔ بعض اوقات تاویل کے حامی اپنے حریفوں سے دست و گریباں ہوجاتے
ہیں ۔ یہیں سے نظریات کی جنگ شروع ہوتی ہے۔ انفرادیت ایک شخص، ایک جماعت، یا پوری
قوم پر مشتمل ہوسکتی ہے۔ انفرادیت کے زاویے کا سب سے بڑا نقص یہ ہے کہ یہ کسی نہ
کسی مرحلے پر کائنات کی دیگر اشیاء سے منحرف ہوجاتی ہے۔ اس زاویہ سے نگاہ ہمشہ غلط دیکھتی ہے۔ مثلاًکسی
چیز کا سائز ھوا میں کچھ اور نظر آتا ہے اور پانی میں کچھ اور یہ اختلاف نظر زمان
و مکان کی پابندیوں کے سبب ہے دیکھنے والا جب تک زمان و مکان سے آزاد نہ ہو کسی
شئے کی حقیقت کو نہیں پاسکتا ۔
یہی
وہ مرحلہ ہے جب کسی ایسے شخص کی ضرورت پڑتی ہے جو اطلاعات کے علم سے واقفیت رکھتا
ہو اور جس نے ذاتی اغراض سے نجات حاصل کرلی ہو۔ جس طرح ایک طبیب مریض کے مرض کو
سمجھ کر اس کے تدراک کا سامان کرتا ہے اور پھر رفتہ رفتہ مریض صحت یاب ہوجاتا ہے۔
اسی طرح ایک روحانی انسان بھی اپنے شاگردوں کو ذاتی اغراض یا زمان و مکان کے جال
سے نکال کر حقیقت سے متعارف کروادیتا ہے،
Khwaja Shamsuddin Azeemi
ان
کالم میں قارئین کے جسمانی، معاشی اور معاشرتی مسائل کے علاوہ بہت ہی زیادہ علمی اور
تفکر طلب سوالات بھی ہوتے تھے۔ جن میں پیراسائیکالوجی کے ٹاپک پربہت سے سولات ہیں۔
میں نے ان کالمز میں سے تقریباَ 125 سوالات جوکہ پیراسائیکالوجی اور علمی نوعیت کے
تھے کو الگ کرکے کتابی صورت دی۔ تاکہ یہ علمی ورثہ ماضی کی تہہ میں دفن نہ ہوجائے
، علم دوست لوگوں تک ان کو پہنچایا جائے اور مرشد کریم کے علوم کا ذخیرہ محفوظ
ہوسکے۔