Topics
سوال : مجھ
جیسے متوالے اورروحانیت کے طالب علم کے لیے آپ کے کالم میں پیراسائیکالوجی کے
عنوان کے تحت سوالات کے جوابات مشعل راہ ہیں ۔ روحانی طالب علم کے ناطے سے خواہش
رکھتا ہوں کہ میرے بھی ایک سوال کو شامل اشاعت فرمادیں۔ تو ذہن کی کھٹک دور ہوجائے
گی، عرض یہ ہے کہ روحانی علوم کے طلباء و طالبات کو علم ’’ لا‘‘ کی اہمیت سے روشناس کرایا جاتا ہے اور
علم ’’لا‘‘ کی اہمیت کو ذہن نشین کرایا جاتا ہے۔ آپ اس پر روشنی ڈالیں کہ
علم ’’لا‘‘ کیا ہے اور یہ علم کیسے حاصل
کیا جاسکتا ہے۔؟
جواب : جب
بھی کسی علم کا تذکرہ زیربحث آتا ہے تو علمی اعتبار سے دو باتیں لازماً پیش آتی ہیں۔
ایک علم کا منفی پہلو اور دوسرا مثبت پہلو۔ علم کے منفی پہلو سے مراد یہ ہے کہ ’’
کچھ نہیں ہے‘‘ اور مثبت پہلو یہ ہے کہ ’’ ہے‘‘
۔ جب ہم منفی پہلو کا تذکرہ کرتے ہیں یعنی
کسی علم کی نفی کرتے ہیں تو دراصل یہ ایک ایسا کلام ہے جس کو مثبت پہلو کی نفی
کرنا کہتے ہیں۔ ہم جس چیز کا انکار کرتے ہیں یا کسی چیز کی نفی تصور کرتے ہیں تو
دراصل ہم یہ کسی ’’ ہے‘‘ کی نفی کرتے
ہیں، یعنی کوئی چیز موجود ہے۔ اگر موجود
نہیں ہے تو اس کا تذکرہ ہی نہیں ہوگا۔
کوئی
چیز موجود ہے تو اِس کا دو طرح تذکرہ کیا جاتا ہے یا وہ چیز موجود ہے یا وہ موجود
نہیں ہے۔ جب ہم علم کے بارے میں کچھ کہتے ہیں علم کی حیثیت ہمارے ذہن میں ایک معنی
رکھتی ہیں ، جب تک وہ چیز ہمارے علم میں داخل نہیں ہوتی اس چیز کے بارے میں ہمارا
علم ’’ لا‘‘ کا درجہ رکھتا ہے اور جب ہم
اِس علم کو سیکھ لیتے ہیں تو ہمارے ذہن میں یہ ’’لا‘‘ ’’الاّ‘‘ کی کی حیثیت اختیار کرلیتا ہے۔ جب ہم اثبات
’’ ہے‘‘ کہتے ہیں یعنی اللہ کو ہم ایک ہستی سمجھتے ہیں جب انکار کرتے ہیں تو اِس
کو نفی کہتے ہیں گویا ہم ایسی ہستی کا تذکرہ کرتے ہیں جس کے ہونے کا علم ہمیں حاصل
نہیں ہیں۔ مفہوم یہ ہوا کہ لا علمی کا نا م نفی ہے اور علم کا نام اثبات ہے۔ جب تک
ہم لاعلمی سے واقف نہیں ہوتے اِ س وقت تک ہم علم کے دائرے میں قدم نہیں بڑھاسکتے ۔
اب ہم اس کے بغیر کچھ نہیں کہہ سکتے کہ لاعلمی بھی دراصل علم ہے۔
روحانی
لوگ لاعلمی کی معرفت کو علم ’’لا‘‘ اور علم کی معرفت کو ’’الّا‘‘ کہتے ہیں۔ یعنی
نور کی ایک تجلی کا نام ’’لا‘‘ اور
دوسری تجلی کا نام ’’الّا‘‘ ہے۔جب کوئی روحانی طالب علم یا سالک علم ’’لا‘‘
یعنی لاشعور سے واقف ہوجاتا ہے یا اپنے لاشعور سے متعارف ہونا چاہتا ہے تو
اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ جو کچھ جانتا ہے اس کی نفی کردے۔ خارجی دنیا کے تمام
توہمات ، تمام تصورات اور تمام خیالات کو عارضی طور پر بھول جائے ، جب تک وہ ایسا
نہیں کرے گااس وقت تک وہ اپنے ذہن کی داخلی گہرائیوں کی فکر نہیں کرسکتا ۔ ایک عام آدمی کسی علم میں پی ایچ ڈی ہے مگر وہ
دوسرے علم کی الف بے سے بھی واقفیت نہیں رکھتا ، اِسے دوسرے علم کو سیکھنے کے لیے
اپنے پی ایچ ڈی کے علم کی نفی کرنا ہوگی وہ جو نیا علم سیکھنے جارہا ہے اس کی
حیثیت باوجود یہ کہ وہ بہت پڑھا لکھا ہے اس کے لیے لا علمی ہے ۔ جب کوئی سالک ،
روحانی طالب علم یا پڑھا لکھا آدمی اپنے علم کی نفی کرکے اس علم کو حاصل کرنا
چاہتا ہے جو علم ابھی تک نفی کا درجہ رکھتا ہے تو وہ نیا علم سیکھ لیتا ہے اور اگر
اپنی علمی حیثیت کو برقرار رکھتے ہوئے نیا علم سیکھنا چاہے جو علم فی الواقع علم
کا درجہ رکھتا ہے تو وہ یہ علم نہیں سیکھ سکتا ہے۔
روحانیت
کا طالب علم کسی روحانی استاد کی نگرانی میں علم
’’لا‘‘ سے متعارف ہوسکتا ہے ۔ یہ
ایک ایسی بات ہے کہ ایک چھوٹا بچہ ہے جو
قاعدہ کے ابتدائی حروف سے ابھی واقف نہیں ہے اس کو ہم کسی استاد کی شاگردی میں لے
جاتے ہیں ۔ استاد اس کی لاعلمی کو علمی
دائرے میں جب داخل کرنا چاہتا ہے تو کہتا ہے ــ
’’ الف ‘‘ اور بچہ بغیر سوچے سمجھے اور
بغیر علم کے استاد کی نقل میں
’’الف‘‘ کہتا ہے اور وہ بتدریج حروف کی شناخت کرکے یعنی لاعلمی کو مان
کر علم سیکھنا شروع کردیتا ہے۔ لیکن اگر یہ ہی بچہ علم ’’لا‘‘
سے واقف نہ ہونے کے باوجود علم کی حدود میں داخل ہوکر استاد کی بات تسلیم
نہ کرے تو وہ علم نہیں سیکھ سکتا۔
لوح
محفوظ کے قانون کے تحت ہم یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہیں کہ جب تک لاعلمی کی معرفت
حاصل نہیں کرلیتے ہمیں علم حاصل نہیں
ہوتا۔ طالبِ روحانیت جب اللہ تعالیٰ کی صفت
’’لا‘‘ سے واقف ہوجاتا ہے تب وہ
اللہ تعالیٰ کا عرفان حاصل کرلیتا ہے۔ سلسلہ عظیمیہ کے امام حضور قلندرؒ بابا
اولیا رحمتہ اللہ علیہ کا ارشاد ہے کہ جب سالک کا ذہن پوری طرح علم ’’لا‘‘
یا واحدانیت کے تصور کو سمجھ لیتا ہے تو دراصل وہ اللہ کی معرفت میں پہلا
قدم اٹھا دیتا ہے، پہلے پہل اسے اپنی ذات کا عرفان حاصل ہوتا ہے اور وہ تلاش کرنے
کے باوجود خود کو کہیں نہیں پاتا۔ جب اس کے علم کی نفی ہوجاتی ہے تو اللہ کی وحدانیت
کا صحیح احساس اور معرفت کا صحیح مفہوم اس کے احساس میں داخل ہوجاتا ہے یہی و ہ
مقام ہے جس کو فنائیت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
Khwaja Shamsuddin Azeemi
ان
کالم میں قارئین کے جسمانی، معاشی اور معاشرتی مسائل کے علاوہ بہت ہی زیادہ علمی اور
تفکر طلب سوالات بھی ہوتے تھے۔ جن میں پیراسائیکالوجی کے ٹاپک پربہت سے سولات ہیں۔
میں نے ان کالمز میں سے تقریباَ 125 سوالات جوکہ پیراسائیکالوجی اور علمی نوعیت کے
تھے کو الگ کرکے کتابی صورت دی۔ تاکہ یہ علمی ورثہ ماضی کی تہہ میں دفن نہ ہوجائے
، علم دوست لوگوں تک ان کو پہنچایا جائے اور مرشد کریم کے علوم کا ذخیرہ محفوظ
ہوسکے۔