Topics
سوال :
سائنسی علوم آج جس طرح دانشوروں کے ذہنوں پر غلبہ حاصل کئے ہوئے ہیں۔ اس
کی وجہ آپ بھی جانتے ہیں کہ جو کچھ وہ کہتے ہیں مظاہراتی خدوخال میں لوگ دیکھ
لیتے ہیں ، ہر انہونی بات جب سامنے آتی ہے تو لوگ کہتے ہیں یہ کیسے ہوسکتا ہے۔
لیکن کچھ عرصہ کے بعد جب اس ایجاد کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتے ہیں تو اس ا نکشاف
کو یقین کی دنیا میں داخل کرنا پڑتا ہے اور اب صورتحال یہ ہے کہ سائنس دان کچھ کہہ
دیں شعور اس کی تردید نہیں کرسکتا۔ اس سلسلہ میں آپ سے درخواست ہے کہ آپ ہمیں
بتائیں کہ مادی دنیا کی زندگی اور روحانی
زندگی میں کیا فرق ہے اور اگر روحانی زندگی ہے تو اس کی معراج کیا ہے؟
جواب :
بلاشبہ موجودہ دور انسان کی شعوری ترقیوں کے عروج کا دور ہے ۔ آج کے انسان
کا شعور اتنا بالغ اور پختہ ہوچکا ہے کہ وہ کسی بات کو اِس وقت تک تسلیم نہیں کرتا
جب تک اسے دو جمع دو چار کی طرح سمجھ نہ لے۔ یہ مثال اگرچہ بہت آسان ہے پھر بھی
ہر آدمی کو یہ بات سمجھانا ناممکن نہیں
تو مشکل ضرور ہے
یہ
بات ہر آدمی بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ جو آدمی گنتی اور حروف تہجی سے ہی ناواقف ہو
، اسے ریاضی کا کوئی فارمولا باور کرانا یاایٹمی تھیوری سمجھانا آسان کام نہیں
ہے۔ روحانی نظام کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی اس علم اورقانون کا مطالعہ کرے
جس کو ابدال حق قلندر بابا اولیاؒ ء نے
روحانی سائنس کہا ہے۔ روحانی سائنس روح کی ساخت اور اس کی تحریکات سے بحث کرتی ہے۔
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے روح کواپنے احکامات میں شمار کیا ہے۔ روح جو اللہ کا
حکم ہے ایک طرف تجلی کی صورت ستاروں ، سیاروں ، کہکشانی اور شمسی نظاموں پر محیط
ہے، دوسری طرف جزو بن کر اشیائے کائنات کے سالموں اور جوہروں کی گہرائیوں میں لہروں
کی صورت میں جلوہ گر ، متحرک اور مصروف بہ
عمل ہے، روح کی تحریکات جہاں انسانوں ،
جانوروں ، نباتات اور جمادات کی نوعوں میں زندگی کے بنیادی ایندھن کے طور پر
کارفرما ہے، وہاں خالق ( اللہ تعالیٰ) اور
مخلوق (انسان اور کائنات) کے درمیان ایک میڈیم ،
واسطہ یا وسیلہ کے فرائض بھی انجام دیتی ہے۔
Khwaja Shamsuddin Azeemi
ان
کالم میں قارئین کے جسمانی، معاشی اور معاشرتی مسائل کے علاوہ بہت ہی زیادہ علمی اور
تفکر طلب سوالات بھی ہوتے تھے۔ جن میں پیراسائیکالوجی کے ٹاپک پربہت سے سولات ہیں۔
میں نے ان کالمز میں سے تقریباَ 125 سوالات جوکہ پیراسائیکالوجی اور علمی نوعیت کے
تھے کو الگ کرکے کتابی صورت دی۔ تاکہ یہ علمی ورثہ ماضی کی تہہ میں دفن نہ ہوجائے
، علم دوست لوگوں تک ان کو پہنچایا جائے اور مرشد کریم کے علوم کا ذخیرہ محفوظ
ہوسکے۔