Topics

زمانیت اور مکانیت


سوال :      روحانیت میں زمانیت اور مکانیت کی کیا حیثیت ہے اور یہ دونوں رُخ ہر انسان کی زندگی کے ساتھ کس طرح پیوست ہے ۔ آخر زمانیت اور مکانیت میں کس کو بقا حاصل ہے؟

جواب:     زندگی کا جس زاویے سے بھی تذکرہ کیا جائے تو یہ بات امر لازم ہے کہ زندگی کے دو رُخ ہیں ۔ ایک رُ خ کا نام زمانیت ہے اور دوسرے رُخ کا نام مکانیت ہے۔ مکانیت کے معانی ہیں اسپیس (Space)  زمانیت کے معنی ہیں ٹائم (Time)  ہم جب اس زندگی کا تذکرہ کرے ہیں جس کو خاکی زندگی کہتے ہیں یا ناسوتی زندگی تو ہمیں لازماً یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ زندگی کے نقش و نگار کہیں سے آرہے ہیں پیدائش کے بعد اس حقیقت سے ایک فرد بھی انکار نہیں کرسکتااسے بہرحال مرنا ہے۔ جب تک زندگی جسم خاکی (نقش و نگار) کو متحرک رکھتی ہے،آدمی کھاتا پیتاہے، نفرت کرتا ہے، محبت کرتا ہے یعنی زندگی کے تمام اعمال و حرکات اس بنیاد پر قائم ہیں کہ نقش و نگارکو چلانے والی ، متحرک کرنے والی کوئی شئے موجود ہے جوظاہری آنکھوں سے نظر نہیں آتی جو چیز زندگی کے نظام کو چلا رہی ہے وہ زندگی کی بنیاد ہے۔وہ بنیاد (Base)  زندگی کو چلاتی ہے تو زندگی چلتی ہے وہی بنیاد جب زندگی سے منہ موڑ لیتی ہے یا زندگی نقش و نگار (جسم خاکی) سے اپنا تعلق ختم کرلیتی ہے تو آدمی مر جاتا ہے۔

زندگی زمانیت ہے نقش و نگار مکانیت ہے آسان لفظوں میں کہا جائے تو ہم کہیں گے کہ ایک انسان ہے اس انسان کے بے شمار نقش و نگار ہیں اعضاء ہیں یعنی ہاتھ، پاوں، آنکھ، کان، ناک وغیرہ لیکن ان اعضاء او ر نقش و نگار کی اہمیت اس وقت ہے کہ ایسی چیزجو نظر نہیں آتی ہمیں حرکت دے رہی ہے اور یہ حرکت دینے والی چیز ٹائم ہے اور جس چیز یا نقش و نگار یا جسم کو حرکت دی جارہی ہے وہ مکانیت ہے ، دوسرے لفظوں میں مکانیت جس بنیاد پر قائم ہے وہ ٹائم ہے بغیر ٹائم اور بغیر مکانیت کے کائنات کا کوئی نقش ظہور میں نہیں آسکتا۔ زمانیت کو مادی آنکھ سے نہیں دیکھا جاسکتا اور مکانیت مادی آنکھ سے نظر آتی ہے۔ ظاہری رُخ مکانیت ہے اور باطنی رُخ زمانیت ہے۔ سورۃ دُخان میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ــ  ’’اس رات حکمت والا معاملہ ہماری پیشی سے حکم ہوکر طے کیا جاتا ہے‘‘ یعنی کائنات میں موجود تمام حرکات و سکنات کا منبع و مخزن اللہ تعالیٰ کی ذات سے وابستہ ہے اور ہر ہر حرکت میں ایک حکمت ہے۔ یہ حکمت دراصل نوع انسانی کے اندر علم کی گہرائی ہے علم کی فکر کی گہرائی انسان کو اس رُخ سے قریب کردیتی ہے جس رُخ کو روحانی دانشور زمانیت کہتے ہیں۔ زندگی کا سارا دارومدار زمانیت پر ہے اور زندگی کا نقش و نگار کے ساتھ حرکت کرنا مکانیت ہے ۔ جب کوئی انسان اللہ کے امر یا حکم سے واقف ہوجاتا ہے تو دراصل وہ زمانیت سے متعارف ہوجاتا ہے یہ زمانی رُخ ہی انسان کو اللہ سے متعارف کراتا ہے ایسے انسان کے سامنے یہ بات آجاتی ہے کہ تمام نقش و نگار یا تمام صورتیں ، تمام کہکشانی نظام یہ سب اللہ کے حکم سے قائم ہیں اور اللہ کے حکم سے ہی تخلیق ہوتے ہیں اور اللہ کے علم کے ساتھ ایک ترتیب سے عالم خلق یعنی زمانیت سے عالم ظاہر (مکانیت) میں منتقل ہوتے ہیں۔

ہم جب کائنات کی تخلیق کا تذکرہ کریں گے تو یہ فارمولہ بنے گاکہ ایک مکانیت (Space)  ہے، اس اسپیس کے اوپر بے شمار مخلوق ہے اور ہر مخلوق اپنے مخصوص خدوخال رکھتی ہے ۔ مخلوق کے ساتھ صورت حال یہ ہے کہ ہر مخلوق اپنی نوع کے اعتبار سے اپنی الگ حیثیت رکھتی ہے لیکن ساتھ ساتھ ہر نوع دوسری نوع سے ہم رشتہ بھی ہے مثلاًانسان اور کبوتر مکانیت کے دائرے میں الگ الگ نوع ہیں لیکن زمانیت کے دائرے میں کبوتر اور انسان ایک مشترک رشتے میں بندھے ہوئے ہیں، مثلاً بھوک انسان کو بھی لگتی ہے اور کبوتر کو بھی ، کبوتر او رانسان پانی پیئے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے ۔ افزائش نسل انسان میں بھی ہے کبوتر میں بھی اور دوسری انواع میں بھی مشترک ہے۔ اپنے خیال کو ایک دوسرے سے تبادلہ کرنا انسانوں میں بھی رائج ہے ، چوپایوں میں بھی، جنات میں بھی اور فرشتوں میں بھی رائج ہے۔ زمانیت کے دائرے میں تما م مخلوق ایک رشتے میں بندھی ہوتی ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ نوع انسان ہوں، حیوان ہوں، جنات ہوں، فرشتے ہوں، نباتات و جمادات ہوں مکانیت کے دائرے میں نقش و نگار کے اعتبار سے اپنی ایک انفرادی حیثیت رکھتے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ سب ایک مشترک حیثیت بھی رکھتے ہیں۔ یہ مشترک حیثیت کائنات کے تمام افراد کے درمیان ایک رشتہ ہے اس رشتے کے بغیر زندگی کا تصور ناممکن ہے۔ اس وضاحت سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ بساط ایک ہے ، نقش و نگار الگ الگ ہیں بساط زمانیت کہلاتی ہے اور نقش و نگار مکانیت کہلاتے ہیں۔

 

Topics


Usoloo

Khwaja Shamsuddin Azeemi


ان کالم میں قارئین کے جسمانی، معاشی اور معاشرتی مسائل کے علاوہ بہت ہی زیادہ علمی اور تفکر طلب سوالات بھی ہوتے تھے۔ جن میں پیراسائیکالوجی کے ٹاپک پربہت سے سولات ہیں۔ میں نے ان کالمز میں سے تقریباَ  125  سوالات جوکہ پیراسائیکالوجی اور علمی نوعیت کے تھے کو الگ کرکے کتابی صورت دی۔ تاکہ یہ علمی ورثہ ماضی کی تہہ میں دفن نہ ہوجائے ، علم دوست لوگوں تک ان کو پہنچایا جائے اور مرشد کریم کے علوم کا ذخیرہ محفوظ ہوسکے۔