Topics
کر اچی کے چڑیاگھر میں شیرنی کے نومولود بچوں کودیکھنے کے لئے ایک ہجوم جمع ہے۔ ننھے منھے بچے رنگ رنگ لباس پہنے شیر نی کے پنجر ے کے سامنے کھڑے ہیں ۔ اور شیر نی کے بچوں کو دیکھ کر خوش ہو رہے ہیں ۔شیر نی مامتا کے ساتھ اپنے بچوں کے قریب بیٹھی ہو ئی اپنے بچوں کی طرح آدم کے بچوں کو بھی شفقت کی نظرسے دیکھ رہی ہے ۔کبھی کبھی اپنے بچوں کی شرارت کو نا پسندیدہ نظر وں سے دیکھتی ہے اور انہیں آنکھوں ہی آنکھوں میں منع کر تی۔ لیکن بچے ہیں کہ شر رات سے با ز نہیں آتے ۔اور شیر کے بچوں کی شرارت، اچھل کود سامنے کھڑے آدم کے بچوں کے لئے تفر یح کا سامان فراہم کر رہی ہے۔۔۔ ۔ ذرادور ،شیر بھی با وقار انداز میں ٹہل رہا ہے ۔ وہ بھی بر دبادی کے ساتھ اپنے بچوں کو دیکھ کر خوش توہو رہا ہے لیکن چہرے سے کو ئی خا ص تا ثر قائم ہو نے نہیں دیتا ویسے نگرانی پو ری اور سخت ہے __
میری اچٹتی ہو ئی نظر جنگل کے با دشاہ شیر پر پڑی تو میں اس کی آنکھوں میں سحر اور چمک سے متا ثر ہو ئے بغیر نہ رہ سکا ۔ شیر کی آنکھوں سے میری آنکھیں چا ر ہو ئی تو مجھے محسوس ہوا کہ شیر کے دماغ میں خیالات بننے والی لہریں آنکھوں کے ذریعے شیر کی آنکھوں کے اندو رنی عضلات (Muscles)سےٹکرا رہی ہیں اور پھر یہ لہریں میری دماغ کی اسکر ین پر منعکس ہو کر کو ئی پیغام دے رہی ہیں۔
اس صورت حال سے پہلے تو گھبرا گیا کہ کہیں شیر بھی کو ئی پیغام دے سکتا ہے ۔یہ بے زبان درندہ مجھ جیسے اشرف المخلو قات سے کیا کہہ سکتا ہے ؟
جیسے ہی ذہن میں یہ خیال آیا کہ شیر درندہ ہے، شیر کی مخمور آنکھوں میں خمار کے طو فا ن اٹھ کھڑے ہو ئے اور نشر یا ت کا دبا ؤ اتنا زیادہ ہو گیا کہ میں شیر کی گفتگو سننے پر مجبور ہو گیا۔ شیر مجھ سے ٹیلی پیتھی کے طر یقے پر گفتگو کر رہا تھا ۔
اس نے طنز بھر ے لہجے میں کہا :۔
اے آدم زاد ! تو مجھے درندہ کہتا ہے ۔ درندگی کی تعر یف یہی تو ہے کہ میں اپنے سے کمزور جا نوروں کا شکار کر کے اپنا پیٹ بھر تا ہوں۔ کیسی عجیب بات ہے شیر گو شت کھا ئے تو وہ درندہ ہے اور آدمی جو اپنا شوق پو را کر نے کے لئے چھوٹی سے چھو ٹی چڑیا کوبندوق سے شکار کر تا ہے اور گو شت کھا تا ہے ۔ درندہ نہیں ہے ۔
شیر کی یہ بات سن کر میرا شعور لزرنے لگا میں نے بہت چا ہا کہتاو یل میں شیر سے کچھ کہو ں مگر میرا ساراعلم اور اشرف المخلوقا ت ہو نے کا ساراغرور سر کے بل آرہا ۔ا ب میں شیر کی آنکھوں سے نکلنے والی لہرو ں سے راہ فرار اختیا ر کر نے کی سوچ ہی رہا تھا کہ میرے اوپر شیر کے بچوں کی ماں نے اپنی نظر یں گاڑدیں اور یوں گو یا ہو ئی :۔
اے آدم زاد!
تو کس بر تے پر اکڑتا ہے ؟دیکھ ، میری طر ف دیکھ ! مجھ سے آنکھیں نہ چر ا، میں موَ نث ہوں تو کو ئی فر ق نہیں پڑتا ۔ہمارے اوپر جنس مسلط نہیں رہتی ۔ہم اس کو تفریح طبع کے لئے استعمال نہیں کر تے بلکہ قانونِ قدرت کے تخلیقی نظام میں اپنا کردار پو را کر نے کے لئے یہ عمل انجام دیتے ہیں ۔
اے اشرف المخلوقات ہونے کا دعویٰ کر نے والے !
ذراسن____! یہاں کچھ دنوں پہلے تیری نوع کا ایک آدمی آیا تھا۔ یہ جو میرا شوہر ہے نا ،یہ ذرا فلسفی اور منطقی مزاج رکھتا ہے بیٹھے بیٹھا ئے اسے کیا سوجھی کہ آدم زاد سے اُلجھ پڑا اور کہنے لگا میں تجھ سے زیادہ زور آور ہوں
آدمی نے کہا !’’ نہیں میں تجھ سے زیادہ زور آور ہوں ۔‘‘
میرے شو ہر نے ا س کی دلیل ما نگی توآدمی نے اپنی
جیب سے ایک فو ٹو نکال کر اسے دیکھا یا اس تصویر میں آدمی شیر کے اوپر بیٹھا تھا ۔
شیر نے کچھ دیر غور کیا ۔ پھراس آد می سے پو چھا ۔’’یہ تصویر کس نے بنا ئی ہے ؟‘‘
آدم زاد نے جواب دیا ۔ ’’یہ تصویر آدم زاد نے بنا ئی ہے ۔‘‘
شیر نے ایک زور دار قہقہہ لگا یاجس سے سارا چڑیاگھر زیر و زبر ہوتا ہوا محسوس ہو ا۔ پھر شیر نے کہا ۔’’اے آدم زاد تو کتنا بے وقوف اور جا ہل ہے کہ اتنی سی بات بھی تیرے شعور میں نہیں ہے آئی___کہ اگر یہ تصویر کسی شیر نے بنا ئی ہوتی تو شیر اوپر ہو تا اور آدمی نیچے ہو تا ۔ ‘‘
بچوں کی اچھل کو د اور اور آس پا س کے شو رو شغب نے شیرنی سے میرا رابطہ توڑ دیا اور کچھ نہ سوچنے کے ارادے کے با وجود بہت کچھ سو چتے ہو ئے چڑیا گھر سے واپس آگیا۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
ان روشن ضمیر دوستوں کے نام جنہوں نے میری آواز پر روحانی مشن کے لئے خود کو وقف کردیا۔