Topics
ماحول میں اپنے جانکار لوگوں کی طر ز فکر کا مشاہدہ کیا جا ئے تو ایک ہی بات سامنے آتی ہے کہ ہر شخص کسی نہ کسی عنوان سے پر یشان ہے ۔ پر یشانی اور خود بیزاری اس کے اوپر مسلط ہے۔ زندگی اتنی مصروف ہو گئی ہے کہ ماہ وسال کی گر دش ایک ثانیہ بن گئی ہے۔ آسائش و آرام کی طلب نے آدمی کی تشخص کو ریزہ ریزہ کر دیا ہے ۔
دماغ کے اندر دو کھر ب خلئے اپنی تمام صلا حیتوں کے ساتھ ہر ہر قدم پر متوجہ کر تے ہیں کہ ملمع شدہ دنیا نہ صرف یہ کہ ایک فر د کے لئے بلکہ پو ری نوع انسانی کیلئے زہر ہلاہل ہے مگر آدم و حوا کے وجود کا تیسرا رخ آدم زاد دماغ کی فر یا د پر کان نہیں دھرتا۔ ایسا لگتا ہے کہ دلوں پر اور کانوں پر مہر لگ گئی ہے اور آنکھوں پر پر دہ پڑ گیا ہے۔ یہ سب کیوں ہے اور نو ع انسانی اپنے اوپر عذاب کیوں مسلط کئے ہو ئے ہے؟اس کا جواب بجز اس کے کچھ نہیں ہے کہ
۔۔۔ہم نے سو نے چاندی کے ذخیروں کو زندگی کی معراج بنا لیا ہے ۔
ہم جا نتے ہیں کہ آدم زاد کی طرح چو پا ئے اور پر ندے بھی اللہ کی مخلوق ہیں ۔ ان کے اندر بھی احتیاج ہے ۔انہیں بھی بھوک پیاس لگتی ہے۔ اے آدم زاد !کبھی تو نے سو چا کہ روزی رساں اتنی بڑی مخلوق کو کس طر ح رو زی فراہم کر تا ہے ۔
کسان جب کھیتی کو سمیٹتا ہے تو جھا ڑو سے ایک ایک دانہ سکیر لیتا ہے ۔اس کی کو شش ہو تی ہے کہ زمین پر ایک دانہ بھی نہ رہے ۔ لیکن اربوں کھر بوں کی تعداد میں اللہ کی مخلوق اپنا پیٹ بھر تی ہے اور تمام غذائی ضررویات پو ری کرتی ہے ۔
اللہ کی شان کر یمی ہے کہ جب آسمان پر پر ندوں کا غول دا نہ چگنے کے لئے اپنے پنجوں اور گر دن کو کشش ثقل کے تا بع کرتے ہو ئے زمین کی طر ف آتا ہے تو اس سے پہلے کے زمین پر اتر یں وہاں ان کی غذائی ضروریات تخلیق ہو چکی ہو تی ہیں۔ اربوں کھربوں پرندے آدمی کی طر ح وسائل کے محتاج نہیں ہیں۔
زمین پر اترنے سے پہلے پرندوں کی غذائی ضرویات کیسے تخلیق ہو جا تی ہیں ؟ یہ ایک راز ہے مگر ایک ایسی حقیقت ہے نوع انسانی کے افراد جس کاہر وقت مشاہدہ کر سکتے ہیں ۔اسرارورموز کے عارف ،اللہ کے دوست حضرت بابا تا ج الدین ناگپوری ؒ کا ایک دوہا کیا خوب ہے! بابا تا ج الدین داس ملو کا تخلص کر تے تھے ۔
اجگرکر یں نہ چا کری ، پنچھی کر یں نہ کام
داس ملو کا کہہ گئے سب کے داتا رام
بابا صاحبؒ ارشاد فر ما تے ہیں چو پا ئے ملازمت نہیں کر تے ،اور پر ندے کا رو بار نہیں کر تے لیکن اللہ تعالیٰ سب کو رو زی فراہم کرتا ہے- ۔
جب دلوں پر اور کا نوں پر مہر لگ جا تی ہے تو کو ئی بات اثر نہیں کر تی ، مگر کیا کیا جائے ! ۔۔۔
مجھے ہے حکم اذاں ۔۔۔لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ
ایک دیوانگی یہ ہے کہ معاشرتی اقدار کو پا مال کر کے آدمی سو نے چا ندی کو سب کچھ سمجھ بیٹھا ہے ۔با لکل اس کے متوازی(Parallel) دوسری دیوانگی یہ ہے ۔۔
۔۔۔۔اس کے باوجود کہ کو ئی نہیں سنتا، ہم سنا ئے جا تے ہیں۔۔۔
حضرت عیسٰی ؑ تبلیغی سفرمیں تھے ایک یہودی ملّا نے عرض کیا ۔’’میں بھی آپ کے ساتھ شریکِ سفر ہو نا چاہتا ہوں ۔ ‘‘
حضرت عیسٰی ؑ نے یہ درخواست منظور فر ما لی ۔چلتے چلتے جب سورج کی تمازت بڑھی اور زمین تپ کر تا نبا بن گئی تو یہ دو نوں صاحبان ایک درخت کے نیچے بیٹھ گئے ۔ طے پا یا کہ کھانا کھا لیا جا ئے دونوں صاحبان نے اپنے اپنے دستر خوان کھولے ۔یہودی ملا کے دستر خوان میں تین رو ٹیاں تھیں اور حضرت عیسیٰ ؑ کے پاس دو ۔ یہودی نے جب یہ دیکھا کہ حضرت عیسیٰ ؑ کے پاس دو ر وٹیاں ہیں تو اس نے فو راً اپنا کھانا چھپا لیا ۔ اور کہا’’ اے پیغمبر ! میں آپ سے عمر میں بڑا ہوں، آپ کے مقابلے میں میرے اعصاب کمزور ہیں کھا نے کے لئے پا نی کی ضرورت پیش آئے گی ۔آپ زحمت کر کے پا نی لے آئیں ۔ ‘‘
حضرت عیسیٰ ؑ پا نی لینے کے لیےگئے تو ملا نے ایک رو ٹی کھا لی ۔ دونوں جب کھانے کے لئے بیٹھے تو حضرت عیسیٰ ؑ نے فر ما یا کہ تمہارے پاس تین رو ٹیاں تھیں ؟ملا نے کہا آپ کو مغالطہ ہوا ہے ۔ حضرت عیسیٰ ؑ خاموش ہو گئے ۔کھانا کھا نے کے بعد دونوں صاحبان لیٹ گئے ۔ ملا سو گیا۔ حضرت عیسیٰ ؑ نے ریت کی تین ڈھیریں بنائیں اور ان کے اوپر پھونک ما ری تینوں ڈھیریاں سونا بن گئیں ۔ ملا جب بیدار ہو ا تو اس نے دیکھا کہ سو نے کے تین ڈھیر پڑے ہیں ۔ حیرت و استعجاب اور خوشی کے عالم میں اس نے پو چھا ۔ ’’اے پیغمبر ! یہ سونے کے ڈھیر کس کے ہیں ؟‘‘
حضرت عیسیٰ ؑ نے فر مایا ''ایک میرا ہے، ایک تیرا ہے اور تیسرا اس کا ہے جس نے تیسری رو ٹی کھا ئی''۔
ملا فوراً بول اٹھا کہ وہ روٹی اسی نے کھا ئی ہے ۔ حضرت عیسیٰ ؑ نے فر مایا کہ اگر وہ رو ٹی تو نے کھا ئی ہے تو سونے کے دو حصے تیرے ہیں اور ایک حصہ میرا ہے ۔ ملا گو یا ہوا ’’آپ اللہ کے برگزیدہ بندے ہیں پیغمبر ہیں، آپ سونے کا کیا کر یں گے ! یہ بھی مجھے ہی بخش دیجئے ۔‘‘
حضرت عیسیٰ ؑ نے فر مایا ۔'' اگر تو میرے ساتھ شریک سفر نہ رہے تو تیسرا حصہ بھی تیرا ہے'' اور حضرت عیسیٰ ؑ وہاں سے اٹھ کر چل دئیے ۔ عیسیٰ ؑ ابھی ملا کی نظر وں سے اجھل نہیں ہو ئے تھے کہ تین آدمی وہاں آ موجود ہو ئے اور یہودی کو پکڑ کر مارنا شروع کر دیا ۔ یہودی ملا نے بہت احتجاج کیا مگر ان تینوں آدمیوں پر اس کا کو ئی اثر نہیں ہوا ۔ وہ تینوں آدمی ڈاکو تھے جو قانون سے چھپتے پھر رہے تھے- ۔
بہت بحث و تمحیص کے بعد آخر یہ طے ہوا کہ سو نے کے دوڈ ھیر وہ تین آدمی لے لیں اور ایک ڈھیر یہودی لے لے ۔ ساتھ ہی ڈاکوؤں نے یہ شرط رکھی کہ ملا بازارسے کھانا لا کر دے ،اس لئے کہ سو نے کی لا لچ میں مخبری نہیں کرے گا ۔قصہ کو تاہ ،ملا کھانا لینے کے لئے شہرکی طر ف چل پڑا ۔ غم و غصے میں پیچ و تاب کھا تا ہوا سوچتا رہا کہ خواہ مخواہ یہ تین آدمی میری دولت کے حق دار بن گئے ۔ بے شک یہ لوگ ظالم اور جا بر ہیں ۔ ان کو معاف کر نا بجا ئے خود نا انصافی اور ظلم ہے ۔ بازار سے کھانا لینے کے بعد ملا نے اس میں زہر ملا دیا ۔ ادھر ان تینوں آدمیوں نے یہ سازش کی کہ جیسے ہی ملا کھا نا لیکر آئے اسے قتل کر دیا جا ئےاس لئے کہ ملا کباب میں ہڈی بن گیا ہے۔ سونے کی تین ڈھیریاں ہیں اور ہم تین آدمی اس کے صیحح وارث اور حق دار ہیں ۔ اگر یہودی کو بیچ سے ہٹا دیا جا ئے تو تقسیم صیحح طور پر عمل میں آجا ئے گی ۔
جیسے ہی ملا زہر آمیز کھا نا لیکر آیا ، ان میں سے ایک نے اسے قتل کر دیا اور تینوں آدمی کھانا کھانے بیٹھ گئے ابھی کھانے کے چند لقمے ہی پیٹ میں نہ اتر ے تھے کہ تینوں کی رُوح پرواز کر گئی ۔
یہ بات بہت زیادہ محل نظر ہے :۔
یہودی کسی ایک فر د کا نام نہیں ہے ۔ انجیل کے اس بیان میں طر ز فکر کی نشان دہی کی گئی ہے ۔ یہودی ملا سے مراد دنیا پر ست اور لالچی بندہ ہے خواہ وہ کسی بھی معاشر ے کا فرد ہو ۔
دولت پر ستی کی چھا پ ہمارے اوپر اتنی گہری اور نمایاں ہے کہ ہم لالچی ملا کی زندہ تصویر بن گئے ہیں ۔ ہر شخص دنیا کی حرص اور لا لچ میں مبتلا ہے ۔ حرص و ہوس کا جو نتیجہ مرتب ہو تا ہے واقعہ مذکور میں اس کی پوری فلم موجود ہے ۔
۔۔۔۔۔۔ہے کوئی جو عبرت حاصل کر ے !
فَاعْتَبِرُوْ اَیااُوْلیِ الْاَبْصَارِ
خواجہ شمس الدین عظیمی
ان روشن ضمیر دوستوں کے نام جنہوں نے میری آواز پر روحانی مشن کے لئے خود کو وقف کردیا۔