Topics

امانت

دوستوساتھیو !

ہم سب ایک دو سرے کی دعا ؤں کے محتاج جس قدر آج ہیں، شا ید اس سے پہلے احتیاج کی یہ صورت نہ رہی ہو ۔ ہر گھر میں ہر فر د مضطرب اور بے چین ہے ۔ کبھی آپ نے یہ سو چا بھی ہےکہ آخر ایسا کیوں ہے ؟جب اخلاقی اقدار ٹوٹ کر بکھر جا تی ہیں اور آدمی اپنی رو ح سے دور ہو جا تا ہے تو اس کے اوپر ما دیت کا خول غالب آجا تا ہے ۔مادہ کیا ہے ؟ عنا صر کا ایسا مجموعہ جس کی فطرت  میں ہر آن  اور ہر لمحہ تغیر  پذیر ی ہے ۔ کبھی آپ نے ما دہ کو ایک حال پرقائم  دیکھا ۔ ما دہ (Matter)  کی تخلیق کا منشاہ ہی یہ ہے کہ اس میں ردوبدل ہو تا رہے ۔جس چیز میں زیادہ ردوبدل ہو تا ہے وہ اتنی ہی زیادہ حقیقت سے دور ہو تی ہے ۔ حقیقت میں کبھی تغیر نہیں ہو تا ۔ وہ قائم بالذات ہے جو چیز قائم بالذات ہے وہ نشیب و فراز اور حالات کے تغیر سے متا ثر نہیں ہو تی ۔ انسان کیا ہے ،رُوح ہے۔ رو ح کیا ہے ،  رو ح اللہ کا امر ہے۔اللہ کا امر کیا ہے ، اللہ کا امر اللہ کا ارادہ ہے۔ اللہ کا ارادہ کیا ہے، اللہ کا ارادہ یہ ہے کہ جب وہ کسی شئے کو تخلیق کر نا چا ہتا ہے تو کہتا ہے ہو اور وہ ہو جا تی ہے ۔ 

ذرا بھی تفکر سے کام لیا جا ئے تو یہ بات سورج کی طرح رو شن ہے کہ ہم بحیثیت مجموعی اور بحیثیت فر د رُوح ہیں۔ رُوح اللہ کا امر ہے ۔اللہ کا امر اللہ کا ارادہ ہے اور اللہ کا ارادہ جب حر کت میں آجاتا ہے تو کا ئنات کے مظاہر چھپنے لگتے ہیں۔ اتنی تعداد میں چھپتے ہیں کہ دنیا کی شماریات عاجز ہیں ۔ 

اب جب ہم اپنے ماحول اپنے گھر کے ما حول ، غم آشنا زندگی ، صعوبت سے پر حالات ، پیچیدہ اور علم ناک خیالات ، الجھے ہو ئے اورازکار رفتہ تصورات پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمارے سامنے صرف اور صرف ایک ہی بات آتی ہے  کہ ہم نے اپنی زندگی کو ایک ما دی خول میں قید کر لیا ہے۔رُوح سے اپنا رشتہ تقریباً منقطع کر چکے ہیں۔ کتنی بد نصیب ہے نو ع انسان کہ سب کچھ پا س ہو تے ہو ئے بھی  مفلس و قلاش ہے، تہی دست اور تنگ ظرف ہے کہ آنکھیں ہوتے ہوئے بھی اندھی ہے۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ مادہ (MATTER)سے محض عارضی رشتہ ہے ،  اسی کو مقصدِ زندگی قرار دے لیا ہے ۔ 

یہ کون نہیں جا نتا کہ وقت مقررہ کے بعد بہر حال بیک بینی ودوگوش اس دنیا سے رخصت ہو جا تا ہے او رما دہ سے بنے ہو ئے آسائش و آرام کے سارے سامان  ہم سے جبراً ا پنا رشتہ منقطع کر لیتے ہیں ۔

اے آدم زاد ! تیرے لئے قدرت اتنی رحیم و کریم ہے کہ اس نے ہر موڑ پر تیرے لئے معا فی کے دروازے کھو ل دئیے اور تجھے اپنے دامن عافیت میں لینے کے لئے ایک لا کھ چو بیس ہزار پیغمبر بھیجے۔۔۔ اے کا ش تو سو چتا کہ تو نے کیا کھویا ہے کیا پا یا ہے ۔ 

اے آدم و حوا کی نا فر مان اولاد ! تو نا فرما نی کے اس گندے تالاب میں غرقِ آب ہے جہاں دنیا اور دین کا خسارہ ہے۔ بلا شبہ یہ ایسا خسارہ ہے جو انسانی بد نصیبی کا مکر وہ داغ ہے ۔

دو ستوساتھیو ! 

آؤ،اپنی اس میراث کو تلاش کر یں جس کے متحمل سموٰت اور ارض اور پہاڑ بھی نہیں ہو سکے ۔ وہ میراث جس کے سامنے آسمان ، زمین ، ستارے ، شمس و قمر سب مسخر ہیں ۔ 

یہ امانت، ما دہ ّکے خول سے ما ورا ، ہماری رو ح کے اندر موجود ہے ۔ 


Awaz E Dost

خواجہ شمس الدین عظیمی

اللہ کےکرم،سیدناحضورعلیہ الصلواۃوالسلام کی رحمت اورحضورقلندربابااولیاءکی نسبت سےعظیمی صاحب ۲۸۷ سےزائدموضوعات پرطبع آزمائی کرچکےہیں ۔ ہرعنوان اس بات کی تشریح ہےکہ انسان اورحیوانات میں فرق یہ ہےکہ انسان اطلاعات (خیالات) اور مصدر اطلاعات سے وقوف حاصل کرسکتاہےجبکہ حیوانات یاکائنات میں موجوددوسری کوئی مخلوقات علم تک رسائی حاصل نہیں کرسکتی ہے۔کتاب آوازدوست،ماہانہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی صفحات میں شامل کالم آوازدوست ( دسمبر ۱۹۷۸ءتادسمبر ۱۹۸۹ء ) میں سےمنتخب شدہ کالمزکامجموعہ ہے

انتساب
ان روشن ضمیر دوستوں کے نام جنہوں نے میری آواز پر روحانی مشن کے لئے خود کو وقف کردیا۔