Topics
عالم خیال سے اُس پار عالم برزخ سے رو ح گزر کر جب بچے کے رو پ میں اپنا مظاہرہ کر تی ہے تواس بچے کی پہلی استاد وہ ہے جوبچے کو نہلا دھلا کر سفید جھا گ جیسے کپڑے میں ملفوف کر تی ہے ۔پھر اس کے بعد استاد کے فرا ئض ماں سنبھال لیتی ہے ۔ ماں کی مامتا بچے کو سب سے پہلے صفائی کا تصور دیتی ہے۔ صفائی کے ایک لا متنا ہی نظام کے ساتھ ساتھ ماں بچے کی شعوری سطح پر باپ کا تصور ابھارتی ہے ۔یہ تصور گہرا ہو تا ہے تو بچے کے دماغ میں ننھے سےدماغ کے ننھے خلیوں میں دادا ، دادی اور نا نا ، نا نی کی تصویریں منعکس ہو نے لگتی ہیں ۔ اور پھر ماں کے ساتھ با پ اور خاندان کےقریبی افراد مل جل کر بچے کے استاد کے فرا ئض سر انجام دیتے ہیں ۔ جس قسم کے استاد ہوتے ہیں وہی بچے کی طر ز فکر بن جا تی ہے ۔ طرزِ فکر کی گہرائی بچے کی شخصیت کا تعین کر تی ہے ۔ افراد خاندان کبرو نخوت ، احساس بر تر ی کے کردار ہو تے ہیں ۔تو بچہ بھی ان کر داروں کا اثر قبول کر تا ہے ۔خاندان کے بڑے چھوٹے اخلاص محبت اور ایثار کےپیکر ہو تے ہیں تو بچے کے اندر میکا نکی طور پر خلوص ، محبت ، اخوت ، حلم و بر دباری کے جذبا ت ابھر تے رہتے ہیں ،طر ز فکر کی بھٹی میں آدمی جل کر راکھ بن جاتا ہے اور طر ز فکر کی بھٹی میں آدمی کندن بھی بن جا تا ہے ۔
میرا بچپن ۔۔۔پوری ایک داستان ہے۔ فکشن داستان نہیں حقیقی کرداروں کے ساتھ داستان____ پیدا ہو اتو ایک نہایت بلند شخصیت نے کھجور چبا کر منہ میں ڈالی ۔ بڑا ہوا ، مکتب میں بٹھا دیا گیا ۔ قرآن پڑھنے والے استاد حسن و جمال سے بے بہرہ توتھے ہی اور حسن اخلا ق بھی یہ تھا کہ کھال اور ہڈیاں ماں باپ کی ، اور با قی سب کچھ حافظ جی کا ۔ پٹتے گئے مضروب ہڈیوں کے ساتھ قرآن پاک کے نورانی الفاظ جس میں معنی مفہوم نہیں تھا دماغ کی سلیٹ پر نقش ہو گئے پھر ایسا ماحول ملا جہاں ہر طرف دین کا چر چا تھا لباس پر ، وضع قطع پر بھی ایک مخصوص لبادہ تھا ۔ گھر کا عالم یہ تھا کہ ماں بچا ری سہمی ہو ئی ڈری ہو ئی ایک ہستی تھی ۔ اس کی اپنی کو ئی حیثیت نہیں تھی ۔ایک مشین تھی جو نا معلوم کسی ایندھن کے زور پر چل رہی تھی ۔یہ مشین کبھی پتھر کے دو پا ٹوں پر آٹا پیستی تھی ، کبھی اوکھلی میں دھان ڈال کر ان کے اوپر موسل بر ساتی تھی ۔ یہ مشین گھر میں اس طرح چلتی پھر تی تھی گو یا اس کا کام ہی ہر وقت چلنا ہے اور کچھ نہ کچھ کر تے رہنا ہے۔ ماں کی مہر بانی سے نوالہ تو سونے کا ملتا تھا مگر دیکھا شیر کی نظر سے جا تا تھا ۔۔۔شیر کی نظر کیا ہو تی ہے ؟ شیر جب اپنی خونی آنکھوں سے دیکھتا ہے آدمی کا سب کھا یا پیا ختم ہو جا تا ہے اور برسوں کی جمع شدہ کیلو ریز آن واحد میں راکھ کا ڈھیر بن جا تی ہیں ۔
ستر سا ل ، اسی سال ، نوے سال کے بو ڑھوں کے اندر یقین کا حال یہ تھا کہ جب ان سے یہ کہا جا تا تھا تم جنتی ہو انہیں کر نٹ سا لگ جا تا وہ التجا آمیز نظر وں اور منت پذیر لہجے سے کہتے کہ خدا کر ے تمہارا کہا سچ ہو ۔ انہیں اپنی عبا دتوں ریاضتوں پر اتنا بھی یقین نہیں تھا کہ جتنا عام آدمی کوعام آدمی پر ہو تا ہے ۔
بے یقینی کے اس ماحول میں پر ورش پا کر میں شعور کی اس منزل پر پہنچا جہاں آدمی اپنے لئے کچھ فیصلے کر تاہے ا س کی سمجھ میں آنے لگتا ہے کہ ما ضی ہی سب کچھ نہیں مستقبل بھی ایک ضرورت ہے ۔ بے یقینی کے اس دور سے نکل کر یقین کے راستوں کی تلاش ہو ئی ۔ذہن میں خیال وارد ہو ا یقین وہاں ملے گا جہاں خوف نہیں ہوگا ۔یقین کی دو لت وہاں سے ملے گی جہاں غم نہیں ہوگا ۔۔۔قصہ مختصرخوف اور غم سے نجات یا فتہ گر وہ کی تلاش میں بر سوں بیت گئے ۔پر کھ کا ایک ہی زاویہ سامنے تھا کہ اللہ کے دوستو ں کو خوف اور غم نہیں ہو تا ۔ستر ہ سال کی عمر سے چھبیس سال تک اللہ کے ایسے دو ستوں کی تلاش میں سر گرداں رہا جس کو اللہ کے ارشاد کے مطا بق غم اور خوف نہ ہو۔ کرامات دیکھیں ،کشف ِحال اور کشفِ قبر کے قصے سنے۔ ایسے حضرات سے وابستگی ہو ئی کہ ان کے ایک اشارے سے رو حیں سامنے آگئیں ۔ایسے قدسی نفس لوگوں سے ملا قات ہوئی جن کے ایک ایک لمحے پر شریعت مطہرہ کی چھا پ تھی ۔مگر ایسے بندے تک رسائی نہیں ہو ئی جس کے اندر خوف اور غم نہ ہو ۔جب دل گداز سے معمور ہو گیا ، آنکھیں آنسو سے لبریز رہنے لگیں ۔ دماغ یکسوئی کی طر ف ما ئل ہو تا چلا گیا تو اللہ کا وعدہ پو را ہوا ۔
’’اور وہ لوگ جو اللہ کے لئے جہد کرتے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں اپنے راستوں کی ہدایت بخشتا ہے ۔‘‘
خو ش نصیب ایک مرد آزاد ملا ، ایسا آزاد بندہ کہ اس کے اوپر غم اور خوف کے بادل کبھی سایہ نہیں کر تے وہ لوگ جو غمگین اور خوف زدہ رہتے ہیں جب ایسے بندے کی مجلس میں جا بیٹھتے ہیں تو ان کے اوپر سکو ن و راحت ۔ مسرت اور خوشی کی با رش برسنے لگتی ہے ۔
یہ آزادمرد۔۔۔
قلندر بابا اولیا ء ؒ ہیں ۔ قدرت نے جن کو پیار محبت سے اپنی آغوش میں سمیٹ لیا ہے ۔ اس آزاد مردنے طر ز فکر کی بھٹی میں ڈال کر وہ تمام بت پا ش پا ش کر دیئے جو ماحول سے ورثہ میں ملے تھے۔۔۔بے یقینی کا بت ، بھوک افلاس سے خوف کا بت موت کے ڈر کا بت ، عزت و بے عزتی کا بت ۔۔۔اندر INNER))میں بسنے والی طلسماتی دنیا زیرو زبر کر دی گئی اور یقین کا ایک ایسا پیٹرن بنا دیا جہاں نظر اللہ کے سوا کچھ نہیں دیکھتی ۔ دل اللہ کے سوا کسی اور چیز کو محسوس نہیں کر تا جہاں علمِ بے عمل جہا لت ہے اور جہاں بے یقینی شرک ہے اور یقین جا و دانی زندگی ہے ۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
ان روشن ضمیر دوستوں کے نام جنہوں نے میری آواز پر روحانی مشن کے لئے خود کو وقف کردیا۔