Topics

سیلاب

ہم جب مذہب کا تذکرہ کر تے ہیں تو ہمارے سامنے دو طر زِفکر آتی ہیں ۔ایک طر ز فکر کہ لوگ کم یا ب ہے اور دو سری طر ز فکر کہ لوگ اکثریت میں ہیں ۔ دو نوں گر وہوں کا کہنا کہ وہ فضل الٰہی سے بہرہ اندوز ہیں ۔ایک طرزِ فکر کے لوگ اپنے نفس پر سختی کر تے ہیں لیکن دو سرو ں کے لئے شفیق ہو تے ہیں ۔ ایک گر وہ کے لوگ عام لوگوں سے اس قدر  دور ہو تے ہیں کہ خیال ہو تا ہے یہ جبلی تقاضوں سے دور ہیں ۔اور نہا یت غلط راستے پر پڑ گئے ہیں ۔ایک گر وہ میں جذباتی ہیجان اور اثر پذیری بہت زیادہ ہو تی ہے اور دوو سرے گروہ کے افراداخلاقی اور عملی زندگی کے دل دادہ ہو تے ہیں۔ دونوں یہ کہتے ہیں کہ ہمارا بھرو سہ اللہ پر ہے اور ہم جوکچھ کر رہے ہیں وہ اللہ کے لئے کر رہے ہیں ۔لیکن دونوں گر وہوں میں سے ایک گر وہ کے اوپر خوف اور غم ہمیشہمسلط رہتاہے ۔وہ جو کچھ کر تا ہے اور کہتا یہ ہے کہ غم اور خوف سے  نجات حاصل کر نے کے لئے ہے۔ لیکن جیسے جیسے مذہب کے روپ میں عملی زندگی  اس کے اوپر محیط ہو تی ہے وہ خوف اور دہشت و تذبذب کے جال میں گر فتار ہو تا چلا جا تا ہے۔ تمام جذبے اس کے سامنے سرد پڑ جا تے ہیں اور جب جذبہ شدت اختیار کر لیتا ہے تو اس جذبے کا حامل ہر فرد دو سرے فر د کو بھی اپنی طر ح غم و خوف میں مبتلا دیکھنا چا ہتا ہے ۔ عبادت اور ریا ضت کے ہر عمل کی بنیاد یہ ہو تی ہے کہ اس عمل سے ڈر اور خوف سے نجات ملے گی ۔کب ملے گی ،اس کے بارے میں یقینی شہادت مو جو د نہیں ہو تی اور یقینی شہا دت نہ ہو نے کی بنا پر ایسا انسان اپنی شخصیت کھو بیٹھتا ہے ۔

ایک جگہ سیلاب آیا جس میں سا راعلاقہ ڈوب گیا۔ لیکن ایک ٹیلے پر پا نی نہیں پہنچ سکا ۔انسان اور جنگل کے بہت جانور اور کیڑے مکو ڑے اس ٹیلے پر پنا ہ لینے جمع ہو گئے ۔ ایک شیر تیرتا ہو ا اس ٹیلے پرآیا اور کتے کی طرح ہا نپتا ہوا لوگوں کے درمیان زمین پر بیٹھ گیا ۔وہ اس قدر خوف زدہ تھا کہ اسے گردو پیش کا ہوش نہیں تھا۔ ایک آدمی اطمینان سے رائفل لیکر اس کی طر ف بڑھا اور اس کے سر پر گولی ما ر دی ۔ خو ف کے جذبے سے شیر اپنی درندگی کی صفت کو بھی بھول گیا اورخو ف کے جذبے نے اسے بکری سے بھی زیادہ بزدل بنا دیا۔ ۔ 

ہم جب زندگی میں کام کر نے والے جذبات کاتذکرہ کر تے ہیں تو ہمیں یہ نظر آتا ہے  کہ حالات و واقعات کے ساتھ ساتھ جذبات میں  تبدیلی رو نما ہو تی ہے ۔گردو پیش میں اگر خوف و ہراس کی فضا پیش کر دی جا ئے تو لوگ خوف زدہ زندگی گزارتے ہیں ۔اس کے برعکس اگر گر دو پیش میں شجا عت اور بہا دری کی فضا ہو تو لو گ بزدل شما ر نہیں ہو تے۔ اسی طر ح گردوپیش میں اگر تساہل ، کسلمندی ، لا پرواہی کے عوامل کا ر فر ما ہو ں تو اس ما حو ل میں رہنے والے اکثر لو گ کا ہل اور تسا ہل پسند ہو تے ہیں ۔ لیکن اگر ما حو ل میں سے کسلمند ی اور کسا ہل دور کردیا جائے تو اسی منا سبت سے لوگ با عمل ہو جا تے ہیں اور قوتِ ارادی سے بڑے بڑے کا رنا مے انجا م دیتے ہیں ۔

مثال۔ایک آرام طلب عورت ہے جو کسی قسم کی زحمت گوارا کر نا نہیں چا ہتی وہ صبح سویرے بستر سے نہیں اٹھتی ۔ دیر تک سونے کی عادی ہے ۔ جہاں اس کو دِقت یا پر یشانی نظر آتی ہے ، ادھر کا رخ نہیں کر تی ۔ لیکن یہی عورت جب ماں بن جا تی ہے تو اس کے اندر انقلاب بر پا ہو جا تا ہے ۔ ما ں کا جذبہ غالب ہو نے کےبعد  وہ راتوں کو  جا گتی ہے۔ بغیر کسی عذر اور شکا یت کے بچے کی پر ورش اور تر بیت میں خیال کو بھی خا طر میں نہیں لا تی ۔ اس کے بر عکس بچے  کی وجہ سے اس کو جو بے آرامی ہو تی ہے ۔وہ اس کے اندر کچھ کر نے کے احسا س کو اور گہرا کر دیتی ہے ۔ وہ ذاتی طور پر کتنی ہی کنجوس ، بے مر وت اور خود غرض ہو لیکن بچے کے لئے وہ ہمیشہ ایثار کر تی ہے ۔

جو لوگ خوف زدہ زندگی سے آزاد نہیں ہیں وہ خود غر ضی اور ہر قسم کے نفسانی اور شہوانی جذبات کی یلغار میں گھرے رہتے ہیں ۔یہ سفلی جذبات اس کو اپنا معمول بنا لیتے ہیں ۔خود پر ستی اور شہوانی احساسات با لآخر ان کے اوپر جمود طا ری کردیتے ہیں اور جب وہ زندگی کے اس دور میں قدم رکھتے ہیں جہاں یہ جذبات جبلی طور پر ازخود سرد پڑ جا تے ہیں توان کے اوپر ایک ختم نہ ہو نے والی بیزاری کی کیفیت مسلط ہو جاتی ہے ۔اس کیفیت سے نبر دآزما ہو نے کے لئے وہ ایسے طر یقے اختیار کر تے ہیں جن طر یقوں میں دو سرے لوگوں کے لئے اذیت اور تکلیف کے علاوہ کچھ نہیں ہو تا ۔مثلاً وہ جب کسی دوسرے آدمی  کو نیکی کی طرف  راغب کر نے کی دعوت دیتے ہیں تو بر ملا کہتے ہیں ۔تم نیکی نہیں کر تے ۔یعنی وہ کہنا یہ چا ہتے ہیں کہ ہم نیکوکا ر ہیں ۔کو ئی بات سمجھنے ، سوچنے اور غورو فکر کر نے کی ہو تی ہے ۔اگر وہ اس کو سمجھا نہ سکیں تو نفرت اور غصہ کا اظہار کر تے ہیں ۔اوران کے اندر اس طر ز ِفکر کی چھاپ اتنی گہری ہو جا تی ہے کہ ان کے چہرے مسخ اور بے نور ہو جاتے ہیں اور ا ن کے چہرے کی اسکرین پر ایک کر بناک فلم چلتی ہو ئی نظر آتی ہے ۔

دوسرا گر وہ وہ ہے جس کی طرزِ فکر میں خوف نہیں ہے ۔وہ جو کچھ کر تا ہے یا اس سے جو اعمال و افعال  سرزد ہوتے ہیں ان کے پیچھے جہنم کا خوف نہیں ہو تا ۔ایسے لوگوں کا نصب العین محبانہ رابطہ اور خالق کے سامنے خوشی سے سر تسلیم خم کر نا اور اپنے تئیں اس کے حوالے کر دینا ہو تا ہے ۔ ان  کے اندر سے ہر قسم کا خوف اور اندیشہ نکل جا تا ہے اور سعادت آمیز سکون ان کی طبیعت میں راسخ ہو جا تا ہے ۔وہ ہر دلعزیز ی اور عزت و اقتدار کی تمنا کو اپنے لئے ممنوع قرار دیتے ہیں ۔ جھوٹ اور منافقانہ عمل سے پر ہیز کر تے ہیں اپنے قول و فعل سے کسی کو دھو کہ نہیں دیتے ایک دو سرے کے ساتھ کامل راستی بر تتے ہیں ۔سچا ئی کوجس طر ح دیکھتے ہیں اسی طر ح بے دریغ بیان کرد یتے ہیں ۔لوگوں کے دل میں پیدا ہو نے والے وسوسوں ، کمزوریوں اور خدشات کو قبول نہیں کر تے سنجیدہ رہتے ہیں ،سنجیدہ با تیں کر تے ہیں ۔اور اپنے آدم زاد بھا ئی اور بہنوں کو سنجیدہ طر یقوں پر زندگی گزارنے کی تلقین کرتے  ہیں ۔ ساتھ ساتھ جھوٹی عاجزی اور علم کی نما ئش نہیں کر تے ۔بنا وٹ اور غروران سے دور بھاگتا ہے ۔

مر کزِ جذبات کی درستگی سے انسان کے ا نددر ایسی پا کیزگی پیدا ہو جا تی ہے جس کے نتیجے میں وہ روحانی نا سازی طبیعت اور زندگی کی بے آہنگی سے پاک ہو جا تا ہے ، جسمانی شہوات بے ہودہ  خیالات سے دل پاک ہو جا تا ہے ۔دنیا کی آلا ئشوں سے نجاتمل جا تی ہے ۔ایسا بندہ اپنے بھا ئیوں بہنوں اور اللہ کی تمام مخلوق کے ساتھ محبت اور نرم دلی کا رو یہ اختیار کر تا ہے اور دشمنوں سے بھی محبت کر تا ہے اور بظا ہر نظر آنے والے گھنا ؤ نے انسانوں کے ساتھ بھی لطف و کرم سے پیش آتا ہے ۔ مر کز جذبات کی نادرستگی سے انسان سختی ،نا ہمواری، منا فقت، کورچشمی، کبرونخوت ، حر ص و طمع اور احساس بر تر ی یا احساس کمتری کا ایک فعال کر دار بن جا تا ہے۔ ایسا کردار جس کو شیطان ذریت ابلیس میں شامل کر کے اس سے اپنے مشن کا کا م لیتا ہے ۔


Awaz E Dost

خواجہ شمس الدین عظیمی

اللہ کےکرم،سیدناحضورعلیہ الصلواۃوالسلام کی رحمت اورحضورقلندربابااولیاءکی نسبت سےعظیمی صاحب ۲۸۷ سےزائدموضوعات پرطبع آزمائی کرچکےہیں ۔ ہرعنوان اس بات کی تشریح ہےکہ انسان اورحیوانات میں فرق یہ ہےکہ انسان اطلاعات (خیالات) اور مصدر اطلاعات سے وقوف حاصل کرسکتاہےجبکہ حیوانات یاکائنات میں موجوددوسری کوئی مخلوقات علم تک رسائی حاصل نہیں کرسکتی ہے۔کتاب آوازدوست،ماہانہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی صفحات میں شامل کالم آوازدوست ( دسمبر ۱۹۷۸ءتادسمبر ۱۹۸۹ء ) میں سےمنتخب شدہ کالمزکامجموعہ ہے

انتساب
ان روشن ضمیر دوستوں کے نام جنہوں نے میری آواز پر روحانی مشن کے لئے خود کو وقف کردیا۔