Topics
جب کسی مسئلہ کو حل کر نے کے لئے ڈانڈے ملا ئے جاتے ہیں تو بہت سی ایسی باتیں سطح پر ابھر آتی ہیں کہ جن کا تجز یہ اگر کیا جا ئے تو بہت تلخ حقا ئق منصۂ شہود پر جلوہ گر ہو تے ہیں ۔
قرآن کہتا ہے کہ اللہ نے ہر چیز جو ڑے جو ڑے بنا ئی ہے ۔مذہبی حلقہ کہتا ہے کہ عورت کو مرد کی اداسی کم کر نے اور اس کا دل خوش کر نے کے لئے پیدا کیاگیا ہے۔
عفت و عصمت کا تذکرہ آتا ہے تو وہاں صرف اور صرف عورت زیر بحث آتی ہے ۔ کیا مر د کو عفت و عصمت کی ضرورت نہیں ؟عورت کے تقدس کو یہ کہہ کر پا ئمال کیا جا تا ہے کہ وہ کمزور ہے ۔ عقل و شعور سے اسے کو ئی واسطہ نہیں علم و ہنر کے شعبے میں عضو معطل بنا کر پیش کیا جاتا رہا ہے ۔دانشور ،واعظ ، گدی نشین حضرات کچھ ایسے تصورات بیان کر تے جس سے عورت کا وجود بہر حال مر د سے کم تر ثابت ہو تا ہے ۔
یہ عورت وہ عورت ہے جس کے خون کا ایک ایک قطرہ مرد کا ایک ایک عضو بن جا تا ہے یہ وہ عورت ہے جو اپنے اندر موجود تخلیقی فا رمولوں سے با رہ کھر ب خلیوں کو جنم دیتی ہے ۔ یہ وہ عورت ہے جو نو مہینے اپنے پیٹ میں بچہ کی نشو ونما کے لیے دن رات ایک کر دیتی ہے ۔ یہ وہ عورت ہے جو مر د کے لئے زندگی میں کا م آنے والی انرجی (Energy) تا نے با نے سے جسمانی خدو خال کے لباس تیا ر کر تی ہے یہ وہ عورت ہے جو دو سال تک اپنا خون جگر بچہ کے اندر انڈیلتی رہتی ہے یہ کیسی بد نصیبی اور نا شکر ی ہے کہ وہی مر د جس کی رگ رگ میں عورت کی زندگی منتقل ہو تی رہتی ہے ۔ مر د کی تفر یح کا ذریعہ سمجھی جا تی ہے ۔ بے رو ح معاشرے نے عورت کو مر د کے مقابلے میں ایسا کر دار بنا دیا ہے جس کو دیکھ کر ندا مت سے گر دن جھک جا تی ہے ۔نا طقہ سر بہ گر یباں ہے کہ مر د نے عورت کو ایک اشتہا ری چیز بنا دیاہے ۔ سڑکوں پرآویزاں بوڑدوں پر ، اخباروں میں ،ضرورت زندگی کی اشیا ء کے پیکٹوں پر انتہا ء یہ کہ گندگی اور غلا ظت صاف کر نے والے ٹین کے سر بند ڈبوں پر بھی ہمیں عورت کی تصویر نظر آتی ہے ۔ اُف ! کتنی بے حر متی ہے اس ہستی کی جس نے اپنا سب کر تج کر مرد کو پروان چڑھا یا ہے۔
بلا شبہ یہ کھلی نا انصافی اور احسان فرا موشی ہے۔ نا شکر ی اور نا انصافی کا رد ِعمل اس قدر بھیانک اور علم نا ک ہو تا ہے کہ تا ریخ اس سے لرزہ براندام ہے۔ دنیا وی علوم سے آراستہ دانشوروں کا یہ وطیر ہ کم عقلی پر منبی قرار دیا جا سکتا ہے مگر جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ رو حانی علوم کے لا متنا ہی میدان میں بھی عورتوں کو نظر انداز کیا گیا تو اعصاب پر مو ت کی سی کیفیت طا ری ہو جا تی ہے ۔سینکڑوں سال کی تا ریخ میں مشہور و معروف اولیا ء اللہ کی فہر ست پر نظر ڈالئے تو صرف ایک عورت کی نشا ندہی ہو تی ہے اور اسے بھی آدھا قلندر کہہ کر اس کی بے حرمتی کی گئی ہے ۔ کیا عورت اور مر د کے اندر الگ الگ رو حیں کام کر تی ہیں ۔ کیا رُوح میں تخصیص کی جا سکتی ہے ؟ کیا رُوح بھی کمزور اور ضعیف ہو تی ہے ؟ اگر ایسا نہیں ہے تو عورت کی رو حانی اقدارکو کیوں محبوب رکھا گیا ہے ؟ مر دوں کی طر ح ان خواتین کا تذکرہ کیوں نہیں کیاگیا جو اللہ کی دو ست ہیں ؟
وہ کون سی ایسی صفت ہے جو سو رۂ احزاب کی ۳۵ ویں آیت میں مر دوں کے لئے گنوائی گئی ہے ۔ اور عورتوں کو اس محروم رکھا گیا ہے ؟ اللہ تعالیٰ مر د اور عورتوں کی یکساں صفا ت بیان کر تے ہوئے ارشاد فر ما تے ہیں:
تحقیق مسلمان مر د اور مسلمان عورتیں اور ایمان و الے مر داور ایمان وا لی عورتیں اور قرآن پڑھنے والے مر د اور قرآن پڑھنے والیاں اور سچ بولنے والے اور سچ بولنےوالیاں اور صبر کر نے مر د اور صبر کر نے والیاں اور عاجزی کرنے والے اور عاجزی کر نے والیاں اور خیرات دینے والے مرد اور خیرات دینے والیا ں اور رو زہ رکھنے والے اور رو زہ رکھنے والیاں اور نگہبانی کر نے والے شر م گاہ اپنی کی اور نگہبانی کر نے والیاں ،اور یاد کر نے والے اللہ کو بہت یاد کر نے والیاں تیار کیا ہے اللہ نے واسطے ان کے بخشش اور ثواب بڑا ۔ (قرآن )
اسلام شرف کا علم بر دار ہے ۔ اس نے سارے انسانوں کو واجبِ عزت قرار دیا ہے پھر عورت مر د کی تخصیص کن مصلحتوں اور کن مفرو ضہ تا ویلوں کی نشا ندہی کر تی ہے ؟ _____جو فر د ، جو قوم اپنی ما ں ، اپنی بہن ، اپنی شریک حیات کی عزت تکر یم کو کم کر تی ہے وہ ذلیل و خوارہو جاتی ہے۔آج من حیث القوم مسلمان کو جس ذلت اور مسکنت کے گہرے غار میں دفن کیا جا رہا ہے ۔ اس کی ایک بڑی وجہ بے انصافی ہے ۔
اے میری ماں ، میری بہن ، میری لخت جگر بیٹی ! تم اور مر د ایک اللہ کی تخلیق ہو تمہارے اور مر د کے اندر ایک اللہ کی رُوح ہے ۔ تمہا رے اند ربھی وہ تمام صلا حیتیں اور صفات موجود ہیں جو قدرت نے مرد کو ودیعت کی ہیں ۔ جب ایک عورت رابعہ بصری بن سکتی ہے تو دنیا کی تمام عورتیں اپنے اندر اللہ کی دی ہو ئی صلا حیتوں کو بیدار کر کے اپنے نام اولیاء اللہ کی فہرست میں ثبت کر اسکتی ہیں۔
وہ زمانہ آگیا ہے ۔ کہ خواتین بھی مر دوں کی طرح روحانی فیوض سے د نیا کو رو شن اور منور کر دیں ۔ اللہ تعالیٰ کا انعام عام ہے آئیے آگے بڑھیں اور صرا ط مستقیم پر چل کر اپنی روحانی طا قت سے نوع انسانی کے اوپر سے شیطانی غلبہ کو ختم کر دیں ۔
رسول اللہ ﷺکی آغوش ِرحمت آپ کی منتظر ہے ۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
ان روشن ضمیر دوستوں کے نام جنہوں نے میری آواز پر روحانی مشن کے لئے خود کو وقف کردیا۔