Topics

شاہکار تصویر

فر ض کیجئے کہ :

آپ ایک مصور ہیں اور تصویر کشی سے متعلق اپنی تمام تر صلا حیتوں کے ساتھ ایک تصویر بنا تے ہیں ۔ یہ تصویرآپ کی زند گی کے ما ہ وسال اور شب و روز کاحاصل شاہکار ہے ۔تصویر پو ری ہو نے کے بعد آپ جب اسے دیکھتے ہیں تو آپ خود اس کے اُوپر فر یفتہ ہو جا تے ہیں ۔آپ یہ بھی چا ہتے ہیں دو سرا کو ئی شخص جب اس تصویر کو دیکھے تو اس کی تعریف کر ے ۔

آپ نے ا یسی زندہ جا وید تصاویر دیکھی ہو نگی کہ جن کو دیکھ کر یہ گمان ہو تا ہے تصویر ابھی اپنے کا غذ ی پیرہن سے نکل کر ہم کلام ہو جا ئے گی ۔

یہ بات کچھ زیادہ پرانی نہیں ہے۔ با رہ سال کا عرصہ گزرا ہوگا کہ میں خالی الذہن تھا یکسوئی اس مقام پر تھی جہاں آدمی کسی ایک نقطہ پرمر کز یت حاصل کر کے ما حول سے بےخبر ہو جاتا ہے ۔

اخبار میں چا ر رنگوں سے چھپی ہو ئی بہت خو بصورت تصویر کے خدو خال شعور کی سیڑھیاں پھلانگ کرجب لا شعور کے کمپیو ٹر (COMPUTER)میں داخل ہو ئے تو خیال نے کر وٹ لی۔ جیسے ہی خیال نے کر وٹ بدلی، ارادہ متحرک ہوگیا اورارادے نے چا ہا کہ کاغذی پیرا ہن پر بنی ہو ئی تصویر کے نقش و نگار ____غزالی آنکھیں گلاب کی پنکھڑیاں جیسے ہو نٹ ، کتابی چہرہ،چہر ہ پر شفیق رنگ گلدستہ کی طر ح ناک اور سر جیسا سر اپا جس آدمی کے ذہن سےاس کا غذ پر منتقل ہوا ہے اس آدمی کے اندر قدرت نے تخلیقی صلا حیتیں ودیعت کی ہیں ۔ 

اس سوچ نے میرے اندر اللہ تعالیٰ کی عطا کر دہ تخلیقی صلا حیتوں کو متحرک کر دیا ۔ اور تصویر کا غذ کے اندرسے نکل کرمیرے سامنے آکھڑی ہو ئی ۔

اور پھر جس طرح کا غذی بساط سے اتر ی تھی اسی طر ح اپنے پیروں سے چل کر کا غذ کے اندر جذب ہوگئی ۔

اس حقیقت سے یہ بات منکشف ہو تی ہے کہ کاغذ کے اوپر تصویر ی خدوخال، نقش و نگار ، حسن ،کشش ، جذب، گداز ، شگفتگی سب جا ندار ہیں ۔اور جب تخلیقی اختیارات ایک نقطہ پر مر کو ز ہو کر ایک ارادہ بن جا تے ہیں تو یہ نقش و نگار شکل و صورت اختیار کر کے ایک جسم بن جا تے ہیں ۔

تصویر بنا نے والا فن کا ر جب کو ئی اپنا شاہکار تخلیق کر تا ہے تو دراصل اس کی رُوح کے اندر موجود تخلیقی فارمولے (EQUATION)متحرک  ہوکر مظہر بن جاتے ہیں ۔یہ تصویر کشی ایک ایسے فن کار نے کی ہے جو خود تخلیق ہے ۔اللہ تعالیٰ بھی ایک مصور ہیں ۔وہ بھی ایسی تصویر کشی کر تا ہے کہ خود اپنی شان میں قصیدہ کہتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ فر ما تے ہیں :

’’اللہ وہ ہے جس نے ماں کے پیٹ میں تصویر بنا ئی اور سبحان اللہ کیا تصویر بنا ئی ۔ ‘‘(قرآن)

اگر مصور سے یہ کہا جا ئے کہ وہ تصویر کے پرزے اڑا دے۔ تصویر کے خدوخال کو مسخ کر دے یا جس کینوس (CANVAS) یا جس کاغذ پر تصو یر بنا ئی ہے اس کو پھاڑ دے،مصور کے لئے اس سے بڑی رنج اور تکلیف کی کو ئی با ت نہیں ہو گی اور وہ کبھی اپنی شاہکار تصویر کو خراب نہیں ہو نے دے گا اور نہ اس کا خراب ہو نا، اس کا مسخ ہو نااُسے پسند آئے گا ۔

اللہ نے ایک تصویر بنا ئی ،ایسی خوبصورت تصویر جو اپنے توازن ، اعتدال، معین مقداروں، رنگ و رو پ ،جذب و کشش  اور حسن کے معیار میں منفر د ہے یکتاہے ،بے مثال ہے ۔ یہ تصویر دیکھتی بھی ہے ، سنتی بھی ہے، بولتی بھی ہے ، محسوس بھی کر تی ہے اور دو سروں کا دکھ درد بھی با نٹتی ہے ۔اگر کو ئی بندہ اس تصویر کو داغ داغ کر نا چا ہےاور  اپنے ظلم و جہالت سےتصویر کو خراب کر دے تو یقیناًیہ بات سب سے بڑے مصور اللہ کے لئے نہا یت نا پسندیدہ عمل ہے ۔

تمام آسمانی کتا بوں میں یہ بات واضح طور پر بیان کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ حقوق العباد معاف نہیں کرتے۔ جب ہم حقوق العباد  کا تذکرہ  کرتے ہیں تو پہلے خود بندے پر اپنا حق عائد ہو تا ہے اس لئے کہ بندہ پہلے خود بندہ ہے ۔

موجودہ تر قی یا فتہ دور میں جس کو آسمانی علوم کے مطا بق بلا شبہ عدم و تحفظ ، بے سکونی ، انتشار اور پیچیدہ مسائل کا تنزل یا فتہ دور کہا جا سکتا ہے، ہر آدمی سو نے کے سکوں کا ذخیرہ کر نے کے لئے اپنی حق تلفی کر رہا ہے ،اپنے جسم و جان کو تباہ کررہا ہے۔ جیسے جیسے بندے کے اندر دنیا کا لا لچ اور ہوس ِزر بڑھ رہی ہے اور اسی مناسبت سے اس کے اندر سے سکون، راحت اور اطمینان ِقلب ختم ہو رہا ہے ۔سکون اور اطمینانِ قلب سے محرومی ، دماغی کشمکش ، ذہنی کشاکش اور اعصابی تنا ؤ کا پیش خیمہ ہے ۔اعصابی تنا ؤ آدمی کے اندر ڈر اور خوف مسلط کر دیتا ہے ۔ زندگی میں غم او ر خوف کی آمیزش آدمی کی تصویر کو بد صورت ، بد مست اور مسخ کر تی رہتی ہے۔

ہا ئے،یہ کیسی نا دانی ہے کہ آدم زاد ہو سِ زر میں اللہ کی بنا ئی ہو ئی من مو ہنی خوبصورت تصویر کو خراب کر رہا ہے ، ضا ئع کر رہا ہے ،تبا ہ کر رہا ہے ۔سونے چا ندی کے سکے اللہ تعا لیٰ نے اس لئے نہیں بنا ئے کہ یہ سکے آدمی کی زندگی کو دیمک بن کر چا ٹ جا ئیں ۔سونے چا ندی کے سکوں کا مصرف یہ ہے کہ آدمی ان سے استفا دہ کر کے اللہ کی بنا ئی ہو ئی تصویر کے لئے زیب و زینت کا سامان مہیا کر ے ۔ لیکن موجودہ دو ر کا المیہ یہ ہے کہ آدمی یہ ثابت کر نے پر بضد ہے کہ سونے چا ندی کے سکے آدم کے لئے نہیں بلکہ آدمی سونے چا ندی کے سکوں کی بھینٹ چڑھنے کے لئے پیدا ہوا ہے ۔یہی وہ طر زفکر ہے جس کے بارے میں قرآن کہتا ہے :

’’اور وہ لوگ جو سو نا چاندی جمع کر تے ہیں اور اللہ کے لئے خرچ نہیں کر تے ان کے لئے درد ناک عذاب ہے ۔ ‘‘

یہ  کیاکم عذاب ہے کہ اللہ تعالیّ چاہتے ہیں کہ  آدمی سینکڑوں سال زندہ رہ کردنیا کی رنگینی میں اپنا کردار ادا کر ے اور آدمی کام ،کا م ، صبح کام ، شام کا م اور ہا ئے دنیا ، ہا ئے دنیا کے ختم نہ ہو نے کے چکر میں خود اپنے ارادہ اور  اختیار سے زندگی کو مختصر تر ین کر نے پر تلا ہوا ہے جبکہ آدم و حوا کی اولاد یہ جا نتی ہے کہ زندگی کو ایندھن بنا کر جمع کی جا نے والی ساری پو نجی ایک دن موت ہم سے چھین لے گی ۔ 


Awaz E Dost

خواجہ شمس الدین عظیمی



ان روشن ضمیر دوستوں کے نام جنہوں نے میری آواز پر روحانی مشن کے لئے خود کو وقف کردیا۔