Topics
یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں اس شعور کی منزل پر نہیں پہنچا تھا جہاں عقل کی بھٹی میں تپ کر آدمی انسان بن جا تا ہے ۔ لیکن یہ سوچ میرے اعصاب کو ہلکان کر رہی تھی کہ زندگی کا مقصد کیا ہے ۔ تفکر کے ڈانڈے زندگی، بندگی سے ہم آغوش ہو تے تھے تو یہ حقیقت سامنے آتی تھی کہ ز مین پر پھیلی ہو ئی صناعی (مخلوق )کا ئناتی نظام میں ایک قدرِمشترک رکھتی ہے ۔بھوک پیاس کے تقاضے جس طر ح آدمی کے اندر رواں دواں ہیں بالکل اسی طر ح دو سری مخلوق بھی ان تقاضوں کی تکمیل میں سر گر داں ہیں ۔پیدا ئش کا عمل چیو نٹی کی نوع میں بھی قائم ہے اور آدمی میں بھی ۔ بچوں کی نگہداشت اور پرورش کااہتمام ایک بلی بھی کرتی ہے ،ایک چو ہا بھی کرتا ہے اور ایک آدمی بھی ۔ جہاں تک تربیت کا تعلق ہے ہر نوع ایک مخصوص طرزِ فکر(THOUGHT) میں خود کو پابند کئے ہوئے ہے_____حصول ِمعاش میں صبح دَم چڑیا بھی مصروف عمل ہو جاتی ہیں ۔ اور ہا تھی بھی ۔میں نےخود دیکھا ہے کہ ایک گا ئے کا بچہ مر گیا اور گا ئے تین دن تک اپنی بڑی بڑی سرمئی آنکھوں سے آنسو بہا تی رہی۔ یہ منظر بھی آنکھوں سے اوجھل نہیں ہو تا کہ ایک گا ئے تخلیقی عمل کے وقت شد ید" دردِزہ" میں مبتلا ہے اور ولادت ایک مر حلہ بنا ہوا ہے۔ ایک ہندو عورت نے جو مامتا کے جذبات سے سر شار تھی ، اعلان کیا ۔
’’گا ئے کو کمرے میں بند کر کے دروازہ با ہر سے بند کر دیا جا ئے ۔‘‘
کچھ دیر کے بعد کمرہ کھو لا گیا تو گا ئے انتہا ئی شفقت سے اپنے بچے کو چاٹ رہی تھی۔ ان کی آنکھوں میں ممتا کی ایسی چمک تھی جو میں نے اپنی ماں کی آنکھوں میں دیکھی ہے ۔ عقدہ یہ کھلا کہ گائے میں بھی شرم و حیا کاتصّور موجود ہے ۔
کسی صاحب نے آدمیت کا مظاہرہ کر کے کہ ایک کوّے کو نشانہ بنا دیا تو نہ معلوم کہاں سے سینکڑوں کوّ ے آموجود ہو ئے اورپھر جو انہوں نے بین کر نا شروع کیا تو کان پڑی آواز سنا ئی نہیں دیتی تھی ۔او ر اظہار غم کا یہ طر یقہ سوئم تک جا ری رہا ۔
رو ئی کے رنگ رنگ گا لوں کی طر ح خوبصورت بچوں کے ساتھ مرغی بڑی شان اور پُروقار انداز میں اِدھر سے اُدھر ٹہل رہی تھی کہ چیل کی آواز نے فضا کا سکون درہم برہم کر دیا ۔ بچوں کی ماں ،مر غی نے خطرہ محسوص کیا اور اپنی زبان میں بچوں سے کہا ۔’’ آؤ آؤ چھپ جا ؤ ماں کی آغوش ہی تمہاری جا ئے پنا ہ ہے۔‘‘
پھول جیسے من مو ہنی صورت والے معصوم بچے خوف زدہ ہو کر دوڑے، مر غی نے اپنے پر پُھلا دیئے اور انہیں اپنی آغوش میں سمیٹ لیا ۔
چڑیا سے بھی ایک بہت چھو ٹے پرندے پر نظر پڑی ۔اس کا گھر بھی دیکھا ۔ گھر کیا تھا ،ایک گنبد نما محفوظ محل تھا___ الگ الگ کمرے , کمروں میں بیڈرو م ،(BEDROOM) بیڈ رو م میں رو شنی کا انتظام______ جی ہاں اس گھر میں جھو لا بھی ہے کہ بچوں کے لئے گہو ار ہ بھی ضروری ہے ۔ مضبوط اتنا کہ آندھی طوفان اس کے سامنے بے بس ، اندر سے ائیر کنڈیشنڈ معلومات حاصل کر نے پرپتہ چلا کہ یہ گھر ’’ بیا ‘‘ کا ہے اور پر ندوں میں اس کا مقام سول انجینئر کا ہے چھو ٹا سا پر ندہ جسمانی ساخت میں چڑ یا کی طر ح ، قدو قامت میں چڑ یا سے چھو ٹا ، مگر دماغ ہا تھی سے زیادہ طا قت ور فنون لطیفہ کے ما ہراس پر ندہ کے اندر عقل و شعور کا عالم یہ ہے کہ ہلا کت خیز ایجا د کا ایٹم بم کا موجد انسان بر سوں میں ریاضت کر ے تو اس قسم کا مکان تعمیر نہیں کر سکتا ۔
یہ اور اس قسم کے بے شمار حقا ئق پر مبنی مشاہدات نے عقل کو مہمیز دی اور نتیجہ یہ اخذ ہوا کہ عقل کا تعلق ڈیل ڈول سے نہیں ہے اور نہ ہی عقل صرف آدم ذاد کی میراث ہے ۔
سوچ کے دھا رے سمندر بن گئے تو یہ خیال دامن گیر ہوا کہ آدمی اور حیوان میں حد ِامتیاز کیا ہے۔ اگر آدمی کا شرف یہ ہے کہ وہ ایجاد کر تا ہے تو ایجاد کا عمل چھو ٹے بڑے جا نوروں میں سرزد ہے یہ الگ بات ہے کہ ایجاد کی نوعیت مختلف ہو تی ہے لیکن نو ع انسانی صرف اس لئے نظر نہیں کر سکتی کہ حیوانات کی ایجاد میں ہمیں تخر یب کا پہلو نہیں ملتا جبکہ آدمی کی ایجا دات میں تخریب کا عنصر غا لب رہتا ہے ۔
یہ ایک خبر متواتر ہے کہ آدمی ایک اشرف المخلوقات ہے مگر شرف اس لئے ظا ہر ہو تا ہے کہ پر ندہ بغیر وسائل کے پر واز کر تا ہے اور آدمی پر واز کر نے کے لئے اربوں کھر بوں ڈالر خر چ کر نے کے با وجود وسائل کا محتاج ہے ۔ تر قی او ر ایجا دات کے جتنے شگو فے کھلتے ہیں اسی منا سبت سے دکھ اور درد میں اضا فہ ہو تا رہتا ہے ۔ انتظامی امور پر اگر نظر ڈالئے تو یہ کہے بغیر چا رہ نہیں ہے شہد کی مکھی کا نظم و ضبط انسانی زندگی سے بہت زیادہ ارفع و اعلیٰ ہے ۔ پھر وہ کو ن سا شرف ہے جس پر آدم زاد کبر و نخوت کی بھٹی میں سلگ رہا ہے وہ کون سا اعزاز ہے جس نے آدم زاد کو شداد ، نمرود اور فر عون کے رو پ میں پیش کیا ہے ؟
آج کادور تر قی کی معراج کا دور کہا جا تا ہے اس معراج کا تجزیہ کر نے سے صاف پتہ چلتا ہے کہ تر قی کے معانی ظلم و ستم کا نہ ختم ہو نے والا لا متنا ہی سلسلہ ہے ۔ تر قی یہ ہے کہ بھو کے ننگے انسانوں کو تر قی کا فر یب دے کر ان کے اوپر علمی بر تر ی کی دہشت بیٹھا دی جا ئے ۔ دھر تی ما تا اپنے بچوں کے لئے جن وسائل کو جنم دیتی ہے انہیں ہڑپ کر کے ہلا کت خیز ہتھیار بنا ئے جا ئیں، بھو کے اور افلاس زدہ سے کھر بوں ڈالر چھین کر ایسا ایٹم بنا یا جا ئے جو لا کھوں آدمیوں کو ایک لقمہ اجل بنا کر نگل لے۔ اور پھر ادرندگی کی تشہیر کر کے اللہ کی مخلوق کو اس قابل بھی نہ رہنے دیا جا ئے ۔ کہ وہ اپنی بقا کے لئے کچھ سو چ سکے۔ اپنی نسل کی حفا ظت کے لئے کچھ کرسکے ۔ بر بر بت کا یہ عالم ہے کہ خود کو سپر پا ور ثا بت (SUPER POWER)کر نے کے لئے ہتھیا روں کا انبار جمع کر لیا جا تا ہے ۔ اور پھر انبار کے اس آتش فشاں سے ایک ماں اور ایک با پ (آدم و حوا ) کی اولاد ، دو بھا ئیوں کو آپس میں لڑادیا جاتاہے اس لیے کہ دو بھا ئی یگا نگت اور محبت سے رہیں گے ۔توسپر پا ور بننے کا عمل خواب بن جا ئے گا ۔ کتنا ذہین اورعقلِ کل ہے دانش ور(SCIENTIST) کہ یہ بات اس کی سمجھ میں نہیں آتی کہ جو چیز وجود میں آجا تی ہے اس کا استعمال لا زمی ہوجاتا ہے ۔کبھی ہم نے یہ بھی سو چا ہے کہ جنت نظیر دنیا کے با غات ،ہنستے بستے شہروں او ر ہرے بھر ے کھلیانوں کو سپر پا ور کیوں نیست و نا بود کر دینا چا ہتی ہے ، اس لئے کہ وہ اس بات پر یقین نہیں رکھتی کہ حاکمیت صرف اللہ کی ذات کے لئے مخصوص ہے اور ہم فکر و آلا م اور عدم تحفظ کی چکی میں اس لئے اس پِس رہے ہیں کہ ہم نے زرپر ست اور متعصب لوگوں کو اپنا ان داتا سمجھ لیا ہے ۔
کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ ہم زیادہ نہیں تو کم سے کم اللہ کی ننھّی منّی مخلوق کی طر ح ہی عقل و شعور سے کام لیں اور اپنے خدا وند اللہ کے اس حکم کی پیر وی کر یں :۔
’’اور اللہ کی رسی کو مضبو طی کے ساتھ پکڑ لو اور آپس میں تفر قہ نہ ڈالو ۔‘‘
قیا مت گزرجا نے سے پہلے ہم نے فطر ی عمل سے کام نہیں لیا تو صفحہءہستی سےہما را وجود حرف غلط کی طر ح مٹ جا ئے گا ۔
قرآن پاک ببانگ دہل یہ اعلان کر رہا ہے :
’’جو قومیں خود اپنی تبدیلی نہیں چا ہتیں ، زمین پر ان کا وجود خس و خاشاک سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا‘‘۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
ان روشن ضمیر دوستوں کے نام جنہوں نے میری آواز پر روحانی مشن کے لئے خود کو وقف کردیا۔