Topics

ستا ئیس جنوری


آؤ یا رو ۔۔۔دلدار کی با تیں کر یں ۔۔۔؟

جنوری کا مہینہ پہلے بھی تمام تر رعنا ئیوں ، مسرتوں ۔ خو شیوں ،رنج و عالم ، داغ مفا رقت ، رُوح کی بے تا بی کے ساتھ آتار ہا ہے ۔ اور آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا ۔

کائنات ایسی حرکت ہے جو ایک لمحے کے لئے بھی رک جا ئے تو یہ رنگ رنگ خوشبو فضائے بسیط میں تحلیل ہو جا ئے گی ۔ جنوری کے آخری عشرے میں کو ئی آنکھ ایسی نہ تھی جو نم نا ک نہ ہو ئی ہو ،  کو ئی دل ایسا نہ تھا جس کی حرکت عارضی طور پر نہ رک گئی ہو ۔

۲۷جنوری ۱۹۷۹ء  کی رات جب کہ دن رات کے کنارے ایک دوسرے سے آملنے کے لئے بے قرار تھے ،قلندربابااولیا ء ؒ کو خالق حقیقی نے اپنی آغوش میں سمیٹ لیا ۔

نورانی لوگوں کی با تیں بھی روشن اور منور ہو تی ہیں۔ زندگی میں ان کے ساتھ ایک لمحے کا تقرب سو سالہ طاعت بے ریا سے افضل ہے اور عالمِ قدس میں چلے جانے کے بعد ان کی یاد ہزار سالہ طاعت بے ریا سے افضل ا علیٰ ہے کہ ایسے مقرب با رگاہ بندوں کے تذکرہ سے آدمی کا انگ انگ اللہ تعالیٰ کی قربت کے تصور سے رنگین ہو جا تا ہے ۔ 

لازوال ہستی اپنی قدرت کا فیضان جاری و ساری رکھنے کے لیے ایسے بندے تخلیق کرتی رہتی ہے جو دنیا کی بے ثباتی کا درس دیتے ہیں، خالقِ حقیقی سے تعلق قائم کرنا اور آدم زا د کو اس سے متعارف کرانا ان کا مشن ہوتا ہے۔

آئیے ! آج کی نشست میں دلدا ر، دل نواز کی با تیں کر یں۔۔۔ اس لئے کہ انسان دو ستی کا تقاضا ہے  کہ انسانیت نواز دوست کی آواز کی لہر یں'' آوازِ دوست'' کی صفحے پر بکھیر  دی جا ئیں ، اس طرح کہ ایک مرقع تصویر سامنے آ جائے۔

فرمایا قلندربابا اولیا ء ؒ نے :

’’نوع انسان میں مر د ،عورتیں، بچے ،بو ڑھے سب آپس میں آدم کے نا طے خا لق کا ئنات کے تخلیقی راز و نیاز ہیں ، آپس میں بھائی  بہن ہیں۔۔ نہ کو ئی بڑا ہے نہ چھوٹا۔ بڑا ئی صرف اس کو زیب دیتی ہے جو اپنے اندر ٹھاٹھیں ما رتے ہو ئے، اللہ کی صفات کے سمندر کا عرفان رکھتا ہو، جس کے اندر اللہ کے اوصاف کا عکس نمایاں ہو، جو اللہ کی مخلوق کے کام آئے ،کسی کو اس کی  ذات سے تکلیف نہ پہنچے ۔‘‘ 

نیکی کی تبلیغ کر نے والا خود نیک ہوتا ہے ۔بالکل اسی طر ح بدکردار آدمی دل کا خود برا ہو تا ہے  تب اس سے بدی یا دوسروں کی بربادی کے کام رونما ہو تے ہیں ۔ غصہ کی آگ پہلے غصہ کر نے والے کے  خون میں ارتعاش  پیدا کرتی ہے اور اس کے اعصاب متاثر ہو کر اپنی انرجی (Energy) ضائع  کردیتے ہیں  یعنی  اس کے اندر قوت حیات ضائع ہو کر دوسروں کو نقصان  پہنچاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نوع انسانی کے لئے کسی قسم کے بھی نقصان کوپسند نہیں فر ما تے ۔ اللہ کا ارشاد ہے :

''جو  لوگ غصے پر کنٹرو ل حاصل کر لیتے ہیں، اللہ ایسے احسان کر نے والے بندوں سے محبت کر تا ہے ''

شمع پہلے خود جلتی ہے اور جب وہ اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ آگ کی نظر کر کے خود کو فنا کر دیتی ہے تو شمع کے اس ایثار پر پر وانے جا ں نثار ہو جا تے ہیں ۔

جو خود عارف نہیں ہے وہ کسی کو عارف  کیسے بنا سکتا ہے۔ جو خود قلاش اور مفلوج الحال ہے وہ کسی کو کیا خیرات دے گا!

یہ کیسا المناک اور خوفنا ک عمل ہے کہ ہم دو سروں کو نقصان پہنچا کر خوش ہو تے ہیں جبکہ آدم وحوا کے رشتے کے پیش نظر ہم خود اپنی جڑ کا ٹتے ہیں۔ درخت ایک ہے، شاخیں اور پتے لا تعداد ہیں۔ اگر کوئی شاخ خود اپنے درخت کی جڑ پر ضرب لگا ئے تو یہ کیسی نا دانی کی بات ہے کہ وہ خود کس طرح محفوظ رہ سکتی ہے۔ خوشی  ہمارے لئے معراج تمنا ہے تو ہم اپنے ہم جنسوں کو تکلیف پہنچاکر کیسے خوش رہ سکتے ہیں ۔ 

ہر انسان دو سرے انسان سے ہم رشتہ ہے ۔ ہر انسان دو سرے انسان سے اس لئے متعارف ہے کہ اس کے اندر زندگی بننے والی لہریں ایک دو سرے میں ردوبدل ہو رہی ہیں ۔ پر مسرت محفل میں جہاں سینکڑوں ہزاروں افراد آلام سے بے نیاز خوشیوں کے لطیف جذبات سے سر شار ہیں، وہاں  ایک فر د کی المناکی ساری محفل کو مغموم کر دیتی ہے ۔۔۔آخر ایسا کیوں ہے ؟

اس لئے کہ پو ری نوع کے افراد زنجیر کی کڑیوں کی طر ح ایک دو سرے کے ساتھ وابستہ و پیوستہ ہیں۔ ایک کڑی کمزور ہو جائے تو  زنجیر میں جب تک دوسری کڑی ہم رشتہ نہ ہو جا ئے زنجیر نہیں کہلا ئے گی ۔ قرآن کاارشاد ہے :

’’متحد ہو کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور آپس میں تفر قہ نہ ڈالو ۔‘‘

اتحاد و یگانگت ماضی کو پر وقار ، حال کو مسرور اور مستقبل کو روشن اور تابناک بناتی ہے ۔ 

مصور ایک تصویر بنا تا ہے۔ پہلے وہ خود اس تصویر کے نقش و نگار سے لطف اندوز ہو تا ہے۔ مصور اگر خود اپنی بنا ئی ہو ئی تصویر سے مطمئن نہ ہو تو دوسرے کیوں کر متا ثر ہو نگے۔ نہ صرف یہ کہ دوسرے لوگ متا ثر نہیں ہوں گے بلکہ تصویر کے خدوخال مذاق کا ہدف بن جا ئیں گے اور اس طرح خود مصور بے چینی ، اضطراب و اضمحلال کے عالم میں چلا جا ئے گا۔ ایسے کام کریں کہ آپ خود مطمئن ہوں ، آپ کا ضمیر مر دہ نہ ہو جا ئے ۔ اور یہی وہ راز ہے جس کے ذریعے آپ کی  ذات دوسروں کے لئے راہ نما ئی کا ذریعہ بن سکتی ہے ۔ 

ہر شخص کو چا ہئے کہ کا رو بار حیات میں پوری پو ری جدو جہد اور کوشش کر ے لیکن نتیجہ پر نظر نہ رکھے ۔نتیجہ اللہ کے اوپر چھوڑ دے اس لئے کہ آدمی حالات کے ہاتھ میں کھلونا ہے۔حالات جس طرح چابی بھر دیتے ہیں، آدمی  اسی طر ح زندگی گزارنے پرمجبورہے ۔ بے شک اللہ قادر مطلق اور ہر چیز پر محیط ہے ۔ حالات پر اس کی گر فت ہے ۔وہ جب چا ہے اور جس طر ح چا ہے حالات میں تغیر واقع ہو جا تا ہے ۔ 

تمہیں کسی کی ذات سے تکلیف پہنچ جا ئے تو اسے بلا توقف معاف کردو اس لئے کہ انتقام بجا ئے خود ایک صعوبت ہے ۔ انتقام کا جذبہ اعصاب کو مضمحل کر دیتا ہے ۔

تم اگر کسی کی دل آزاری کا سبب بن جا ؤ تو اس سے معافی مانگ لو قطع نظر اس کے کہ وہ تم سے چھو ٹا ہےیا بڑا اس لئے کہ جھکنے میں عظمت پو شیدہ ہے ۔ قرآن پاک کی روشنی میں :

’’آدمی نا قابل تذکرہ شے تھا۔ اس کے اندر اللہ نے اپنی رُوح پھونک دی پس وہ دیکھتا، سنتا  اورمحسوس کر تا انسان بن گیا ۔‘‘

رو ح کیا ہے ؟رو ح امرِ رب ہے۔ امرِ رب یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو کہتا ہے ’’ہو ‘‘ اور وہ ہو جا تی ہے ۔ 

جس فر د کے دل میں شک جا گزیں ہو، وہ عارف کبھی نہیں ہو سکتا، اس لئے کہ شک شیطان کا سب سے بڑا ہتھیار ہے جس کے ذریعے وہ آدم زاد کو اپنی رُوح سے دور کر دیتا ہے ۔روحانی قدروں سے دوری آدمی کے اوپر علم و  آگا ہی اور عرفان کے دروازے بند کر دیتی ہے ۔ 

اللہ والوں کے اوپر رحمتوں کا نزول ہو تا ہے تجلیات کی بارش ہو تی ہے۔ ان کے فیوض و بر کات کی روشن اور منور چا در ایک عالم پر سایہ فگن رہتی ہے ۔ 



Awaz E Dost

خواجہ شمس الدین عظیمی

اللہ کےکرم،سیدناحضورعلیہ الصلواۃوالسلام کی رحمت اورحضورقلندربابااولیاءکی نسبت سےعظیمی صاحب ۲۸۷ سےزائدموضوعات پرطبع آزمائی کرچکےہیں ۔ ہرعنوان اس بات کی تشریح ہےکہ انسان اورحیوانات میں فرق یہ ہےکہ انسان اطلاعات (خیالات) اور مصدر اطلاعات سے وقوف حاصل کرسکتاہےجبکہ حیوانات یاکائنات میں موجوددوسری کوئی مخلوقات علم تک رسائی حاصل نہیں کرسکتی ہے۔کتاب آوازدوست،ماہانہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی صفحات میں شامل کالم آوازدوست ( دسمبر ۱۹۷۸ءتادسمبر ۱۹۸۹ء ) میں سےمنتخب شدہ کالمزکامجموعہ ہے

انتساب
ان روشن ضمیر دوستوں کے نام جنہوں نے میری آواز پر روحانی مشن کے لئے خود کو وقف کردیا۔