Topics

محبت کے گیت

کہا جا تا ہے کہ یہ دنیابا ر بار یا زیادہ صحیح اندازوں کے مطا بق سولہ مر تبہ تبا ہ ہو کر دو با رہ آبا د ہو ئی ہے ___خوبصورت،رنگین ،با غ و بہار سے مزین، پر کشش بر فا نی کہساروں ، مو تی کی طر ح چمکتے دمکتے  آبشاروں ، آفتا ب کی شعا عوں اور چا ند کی کر نوں کا مسکن یہ دنیا ___ اب پھرچا لیس ہزار ایٹم بموں کی زد میں موت کے دہا نے پر کھڑی ہانپ رہی ہے ۔زمین کے اندر بہنے والے چشمے، انسان کو تر قی کاراستہ بتا نے والی معدنیات ، نظامِ کشش ثقل باحسرت و یاس اپنے بیٹوں کے ہا تھوں اپنی ہلا کت کی منتظر ہے ۔جس زمین نے ہمیں پر وان چڑ ھا یا ہے آج وہ زمین ،وہ  دنیا ایک مجسم سوال بن گئی کہ آدم زاد کس قصور ، کس جرم اور کس پا داش میں زمین کی تبا ہی کے درپے ہے ۔آدم زاد کو اس کی جنم بھو می نے کیا کچھ نہیں دیاہے ۔ انگو ٹھا چو ستے بچے کی جوانی اور جوانی کی لذت اندوز کیفیات اور ان مسرور کن کیفیات کے نتیجے میں دنیا کی رو نق کیا زمین کااحسان نہیں ہے ؟ یہ کیسی احسان فراموشی ہے کہ بچے اپنی ماں کی گو د اجاڑ کرنے اور بر با د کر نے پر مصر ہے !

خالق ِکا ئنات نے اس دنیا کو محبت ، خوشی ، مسرت وشادمانی اور ایثار کا گہوار۱ بنا یا تھا ____اور آج بھی دنیا کی ہر شئے دیدہ بینا کو مسرت اور خوشی مہیا کر تی ہے۔خوبصور ت خوبصورت رنگ بہ رنگ چڑیا ں ، فطرت کے شاہد مناظر ، پا نی  کااتار چڑھا ؤ ،پہاڑوں  کی بلندی ، آسمان کی رفعت ، پھو لوں کا حسن ، درختوں کی قطا ریں ، تا روں بھری رات ، روشن رو شن دن ، ماں کی آنکھوں میں محبت کی چمک ، بچے کا مچلنا اور کلکاری بھرنا ، بہن کی پاکیزگی ، بھا ئی کا اخلاص ، بیٹی کا تقدس، با پ کی شفقت یہ سب بلا شبہ نوع انسان کے لئے خوشی اور شا دما نی کا سامان ہیں ۔ ایک ماں کی طر ح زمین بھی یہی چاہتی ہے کہ اس کی اولاد پر مسرت زندگی گزار ے ، زمین کو دو زخ نہ بنا ڈالے۔اس کے اوپر پھولوں کے بجا ئے انگا روں کی کا شت نہ کی جا ئے ۔

ستر ما ؤ ں سے زیادہ محبت کر نے والی ذات ، اللہ کیا ہے ؟__اللہ محبت ہے ، اللہ خوشی ہے۔ اللہ نے کائنات کو صرف تخلیق ہی نہیں کیا۔کا ئنا ت کو قا ئم رکھنے اور مسر ت و  شا دما نی کو دوا م بخشنے کے لیے آدم کو تخلیق کیا اور ذیلی تخلیق کی ذمہ داری عورت کے نا زک کندھوں پر رکھ دی ، عورت کے دل میں اس کی ہر ہر روئیں میں اپنی وہ محبت انڈیل دی جو اللہ کی اپنی صفت ہے ۔ خالق ِکائنات اللہ نے عورت کو تخلیق کا میڈیم بنا کر اس کے اندر تخلیقی صلا حیت کے ساتھ ساتھ ستر میں سے ایک حصہ اپنی محبت منتقل کر دی تا کہ عورت ماں بن کر اللہ کی تخلیق کو قائم رکھے اور اس با غ کی  آبیا ری کو قائم کر تی رہے جس کو پر بہار دیکھنا اللہ کے لئے سب سے بڑی خوشی ہے ۔

میری بہنو ، میری ما ؤں ، میری بیٹیو! 

یہ دنیاآپ کے دم سے پُر رونق اور آباد ہے ۔آپ کی عظمت اس سے ظا ہر ہے کہ نظام ِتخلیق آپ کے وجود سے قائم ہے۔ آپ ہر اس ہستی کی تخلیق کا باعث ہیں جس جس نے اللہ کے قانون کو سامنے رکھ کر اس زمین کو غم و آلام سے نجات دلا نے کی کوشش کی ہے ۔ ان میں عظیم مفکر بھی ہیں ، انبیا ء اکرام اور ان کے دوست اولیا ء اللہ بھی ہیں ۔

عورت کی فضلیت کا عالم یہ ہے کہ ماں کی آغوشِ راحت میں اللہ کے محبوب خاتم النبیین ﷺ نے تر بیت پا ئی اور وہ ماں ہی ہے جس کے دودھ سے آپ ﷺ کا شعور پر وان چڑھا اور اس شعور سے اللہ کے احکامات  کونوعِ انسانی تک پہنچا یا ۔ یہ کون نہیں جا نتا کہ ہر مصلح قوم کی وریدوں میں ماں کا خون دوڑ رہا ہے ۔

یہ کیسی المناکی ہے کہ ______

سائنس کی پُر فر یب تر قی کے پر دے میں آپ کے نونہالوں کو چھیننے کے منصوبے بنا ئے جا رہے ہیں ۔سائنسدانوں کا ایک کر تا دھر تا طبقہ چا ہتا ہے کہ مسرت کا قلعہ کھنڈر بن جا ئے ۔ محبت کے سوتے خشک ہوجائیں ۔اخلا قی، معاشرتی پا بندیاں جو انسان کی بلندی کا با عث ہیں، ان کی تمام دیواریں منہدم ہو جا ئیں ۔

چند مفا د پر ست سر مایہ داروں نے انسانی عروج اور فہم و فراست کی تابا نیوں کواپنی تجو ریاں بھر نے کا ذریعہ بنا لیا ہے ۔بلا شبہ دل کی پیو ند کا ر ی میڈیکل سائنس کا ایک بڑا کا ر نا مہ ہے لیکن دل کے ایک آپر یشن پر تقریباً دو لاکھ روپیہ خرچ آتا ہے ۔عوام کا وہ کونساطبقہ ہے جو اتنا زر کثیر خرچ کر کے ایک بیماردل کے لئے زندگی طلب کر سکتا ہے ۔آپ نے دودھ پلا کراپنے جگر گو شوں میں جو صلاحیت پیدا کی تھی وہ اب کا رو بار بن گئی ہے۔سونےچاندی کے سکوں کی قیمت بڑھ گئی ہے اور انسان کی قیمت گھٹ گئی ہے ۔

اے میری ما ؤں ، میری بیٹیو، اللہ کی تخلیق میں رنگ بھر نے والی عورتو ! 

اب آپ کے اوپر دو ہری ذمہ داری آگئی ہے ۔ قانو نِ قدرت آپ کو اپنی بادشاہی میں شریک کر نا چاہتا ہے ۔آپ اپنے بچوں کی گھٹی میں یہ بات ڈال دیں  کہ دنیا قائم رہنے کے لئے بنی ہے ۔دنیا خوشی اور ساز و آواز کا گہوارہ ہے ۔آپ اپنے نو نہالوں میں یہ طر ز فکر مستحکم کر دیں کہ اللہ سرا پا محبت ہے ۔اور چا ہتا ہے کہ دنیا میں محبت کے گیت گا ئے جا ئیں ۔اگر ہماری ما ئیں ، ہماری بہنیں ، ہماری بیٹیاں اپنی اولاد میں اللہ اور اس کے رسول کی بتا ئی ہو ئی خلوص ، محبت اور ایثار کی طرزِ فکر منتقل کر دیں تو دنیا پر چھا ئے ہو ئے خوف وہراس کے بادل چھٹ جا ئیں گے ۔ معا شرہ سدھر جا ئے گا ۔ دولت کو سب کچھ سمجھنے والے لوگوں کی ذہا نت زنگ آلو د ہو جا ئے گی اور نوع انسانی پھر سے منزل کی طر ف گا مزن ہو کر اس دنیا کا سراغ پا ئے گی ،جو مسرت ہے ، خوشی ہے ، انبساط ہے اور محبت ہے ۔


Awaz E Dost

خواجہ شمس الدین عظیمی

اللہ کےکرم،سیدناحضورعلیہ الصلواۃوالسلام کی رحمت اورحضورقلندربابااولیاءکی نسبت سےعظیمی صاحب ۲۸۷ سےزائدموضوعات پرطبع آزمائی کرچکےہیں ۔ ہرعنوان اس بات کی تشریح ہےکہ انسان اورحیوانات میں فرق یہ ہےکہ انسان اطلاعات (خیالات) اور مصدر اطلاعات سے وقوف حاصل کرسکتاہےجبکہ حیوانات یاکائنات میں موجوددوسری کوئی مخلوقات علم تک رسائی حاصل نہیں کرسکتی ہے۔کتاب آوازدوست،ماہانہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی صفحات میں شامل کالم آوازدوست ( دسمبر ۱۹۷۸ءتادسمبر ۱۹۸۹ء ) میں سےمنتخب شدہ کالمزکامجموعہ ہے

انتساب
ان روشن ضمیر دوستوں کے نام جنہوں نے میری آواز پر روحانی مشن کے لئے خود کو وقف کردیا۔