Topics

توانائی

برسوں کی تحقیق و جستجو کے بعد طبیعات نے انکشاف کیا ہے کہ کا ئنات میں جا ری وساری قوتیں جن کی تعداد اب تک چا ر سمجھی جا تی تھی صرف تین ہے۔ کم علمی کی بنا پر ایک طا قت کو دو طر ح شنا خت کیا جا رہا تھا ۔ اسی انکشاف پر پا کستانی سائنسدان ڈاکٹر عبد السلام کو فزکس کا نوبل انعام دیا گیا ہے ۔ 

یہ نظر یہ بھی سامنے آیا ہے کہ علمی و تحقیقی ارتقا کے ساتھ آج سے پچیس ، پچاس یا سو سال کے بعد سائنس اس امر کی شہا دت فرا ہم کر ے گی کہ فی الواقع کا ئنات میں جا ری وساری طا قت صرف ایک ہے جس کو کم علمی کی بنا پر چار تین یاد و سمجھا جا رہا تھا ۔

دو سری طر ف سائنس دانوں نے فو ٹو گرا فی کا ایک ایسا طر یقہ اور آلات وضع کئے ہیں جس کے ذریعے اتا ری گئی تصویروں نے شہا دت دی ہے کہ ہر ما دی وجود کے گرد رنگین رو شنیوں کا  ایک ہا لہ ہے اور اس ہا لہ نور جسے AURA کا نام دیا گیا ہے ، کا مطا لعہ کر کے بظا ہر پو شیدہ ذہنی جسمانی کیفیات کا انکشاف کیا جاسکتا ہے ۔

تیسری طر ف جد ید نفسیات دریافت کی اس منزل پر پہنچ گئی ہے کہ جب ذہن انسانی کا مل یکسوئی کے ساتھ کسی خیال میں مر کوز ہو جا تا ہے تو تحت الشعور اس خیال کو ماد ی وجود کے ساتھ مظہر بنا دیتا ہے ۔

ہر آدمی جا نتا ہے کہ دیگر تمام معامالات کی طر ح علمی پیش رفت اور انکشافات بھی آفا قی قوانین کے تا بع ہیں ۔ جو قوم ان قوانین کے مطا بق جدو جہد کر تی ہے وہ کا مران ہو تی ہے۔ یو رپی ممالک اور امر یکہ نے جب وسائل میں قید  مادے کو اولیت دے  کر آفا قی قوانین کو حر کت دی تو ان کے اوپر مادی وسائل میں مخفی صلا حیتوں اور طا قتوں کا انکشاف ہو تا چلا گیا اور آج یہ قومیں محض اپنی علمی فضلیت کی وجہ سے بر تر ی حاصل کر چکی ہیں ۔ 

مو جودہ سائنس تلاش و جستجو کے راستے پر چل کر اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ پو ری کا ئنات ایک ہی قوت کا مظاہرہ ہے ۔ انکشاف نیا نہیں ہے ۔ ہمارے اسلاف میں کتنے ہی لوگ اس بات کو بیان کر چکے ہیں کہ کائنات کے تمام مظاہر کو ایک ہی توانائی کنٹرول کر تی ہے اور اس قوت کا براہ راست اللہ تعالیٰ کے ساتھ ربط ہے ۔ قرآن اس حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کر تا ہے ۔ 

اَللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۔۔۔ اللہ آسمانوں اور زمین کی رو شنی ہے ۔

ہم ما دی سائنس اور اپنے اسلاف کے علوم کا موازنہ کر تے ہیں تو یہ دیکھ کر ہمارے اوپر حیرت کے باب کھل جا تے ہیں کہ  آج سے تقریباً آٹھ صدی پہلے حضرت  شاہ عبد القادر جیلانی ؒ ایک  ایسے  عظیم سائنسداں تھے جوفطرت کے قوانین کو جانتے تھے ،جن کے وجود مسعود سے آفا قی قوانین کے رازہا ئے سر بستہ کا انکشاف ہوا  ہے۔ حضرت شاہ جیلا نی ؒ نے فطر ت کے قوانین کے استعمال کا جو طر یقہ بتا گئے ہیں اور  انہوں نے  ان قوانین کوسمجھنے کی جو راہ متعین کی ہیں وہاںآج کی سائنس کھر بوں ڈالر خر چ کر کے بھی نہیں پہنچ سکی ہے ۔ 

سائنسی علوم کی تر قی اور کا میابی کا ایک بڑا فیکٹر (Factor)بجلی یا الیکٹرک سٹی (Electricity)ہے اور اب یہ بات سامنے آچکی ہے کہ ہر موجود شئے میں بر قی اور مقنا طیسی (Electromagnetic)  لہریں موجود ہیں۔ مختلف اشیاء میں یہ لہریں مختلف تنا سب اور مقداروں میں کام کر تی ہیں جبکہ ان لہروں کو ایک بنیادی قوت زندگی مہیا کر تی ہے۔ یہی لہریں ہیں جو زندگی اور زندگی کے تمام عوامل و حر کا ت کو قائم رکھے ہو ئے ہیں ۔

شیخ محی الدین عبد القادر جیلا نی ؒ نے بتا یا ہے کہ زمین اور آسمان کا وجود اس رو شنی پر قائم ہے جس کو اللہ تعالیٰ کا نور فیڈ کر تا ہے ۔ اگر نوع انسانی کا ذہن ماد ہ سے ہٹ کر اس رو شنی میں  مر کوز ہو جا ئے تو وہ یہ  سمجھنے پر قادر ہو جا ئے گا کہ انسان کے اندر عظیم الشان ما وارئی صلا حیتیں ذخیرہ کر دی گئیں ہیں جن کو استعمال کر کے نہ صرف یہ کہ وہ زمین پر پھیلی ہو ئی اشیاء کو اپنا مطیع و فر ماں بردار بنا سکتا ہے بلکہ ان کے اندر کام کر نے والی قوتوں اور لہروں کو حسبِ منشاء استعمال بھی کر سکتا ہے۔ پو ری  کائنات اس کے سامنے ایک نقطہ اور دائرہ بن کر آجا تی ہے۔ اس مقام پر انسانی ما دی وسائل کا محتا ج نہیں رہتا ۔ وسائل اسکے سامنے سر بسجود ہو جا تے ہیں ۔

ہم جب قرآن کی تعلیمات اور رسول اللہﷺ کی سیرت کو دیکھتے ہیں اور مسلمانوں کی حالت پر نظر ڈالتے ہیں تو سوائے افسوس کے کچھ حاصل نہیں ہو تا۔ اس لئے کہ قرآن کی حقیقی تعلیم اور مسلمانوں کے عمل میں بہت بڑا تضاد واقع ہو چکاہے۔ قرآن جس راہ کا تعین کر تا ہے، مسلمان جس راہ پر چل رہا ہے یہ دونوں دو ایسی لکیریں ہیں جو آپس میں کبھی نہیں ملتیں ۔ 

اللہ نے انسان کو اپنا نا ئب بنا یا ،اس کے اندر اپنی صفات کا علم پھونکا ہے اس کو اپنی صورت پر تخلیق کیا ہے۔ نا ئب کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ اگر ایک مملکت کا صدر اپنے اختیارات کو استعمال کر نے میں کاغذقلم کا محتاج نہ ہوتو اس کانا ئب اختیارات  استعمال کر نے میں کا غذ قلم کا محتاج ہو ۔ 

اللہ وسائل کی محتاجی کے بغیر حاکم ہے تو اس کا نا ئب بھی وسائل کا دست نگر نہیں ہو تا جس طر ح خدا نے کن کہہ کرکائنات کو وجود بخشا ہے خدا کا نائب بھی اپنے ذہن کو حر کت دے کر  خدا کی تخلیق میں تصرف کر سکتا  ہے ۔کیونکہ اللہ کا نائب اس بات سے واقف ہو تا ہے کہ کا ئنات میں موجود تمام مظا ہر ایک ہی ذات سے ہم رشتہ ہیں ۔ 

مسلمان کے پاس ماورائی علوم کا جتنا بڑا سر ما یہ موجود ہے وہ اسی مناسبت سے مفلوک الحال ہے ۔ مسلمان کے اسلاف نے اس کے لئے حاکمیت اور تسخیر کا ئنات کے بڑے بڑے خزانے تر کہ میں چھوڑے ہیں لیکن وہ بد نصیب قوم ہے جس نے ہیرے کو پتھر کہہ کر پھینک دیا ہے ا ور اس خزانے سے مستفیض ہو نے کی صلا حیت کھو بیٹھی ہے ۔ یہ سب کچھ اس لئے ہے کہ مصلحتوں کے پیش نظر مسلمان کو تفکر  کی راہ سے دور ہٹادیا گیا ہے اور اس کے سامنے ایسی نہج آگئی ہے جہاں اس کا ہر عمل کارو بار بن گیا ہے ۔ 

کتنی مضحکہ خیز ہے یہ بات کہ  قرآن کائنات پر ہماری حاکمیت اور سر داری تسلیم کر رہا ہے ۔ہمارے اوپر حاکمیت اور سر داری کے دروازے کھول رہا ہے اور ہم قرآن کو بر کتوں کی کتاب سمجھ کر طاقوں میں  سجا ئے رکھتے ہیں ۔ جب کوئی افتاد پڑتی ہے تو اس کی آیات  تلاوت کر کے دنیا وی مصائب سے نجات کی دعا ئیں ما نگتے ہیں مگر اس طر ف ہماری تو جہ مبذول نہیں ہو تی کہ

 قرآن میں تفکر اگر ہمارا شعار بن جا ئے اور ہم اس تفکر کے نتیجے میں میدانِ عمل میں اتر آئیں تو ساری کا ئنات پر ہماری سر داری مسلم ہے۔

 افسوس کہ ہم ان خزانوں کو نظر انداز کر کے دوسروں کے دست نگر بنے ہو ئے ہیں ۔قرآن کے ارشاد کے مطا بق اللہ نے ہمیں شمس و قمر ، نجوم ، ارض و سماوات سب پر حاکم بنا دیا ہے اور اس حاکمیت کو حاصل کر نے کے طر یقے بھی بتا ئے ہیں لیکن ہم ہیں کہ ہر شعبہ زندگی میں دو سروں کے پس خوردہ نوالوں کو اپنی زندگی کا حاصل سمجھ بیٹھے ہیں ۔ 

ہماری زندگی محض دنیاکے حصول تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ ہماری عبا دتیں بھی دکھا وے اور دنیا وی بر کتیں سمیٹنے کے لئے مخصوص ہو گئی ہیں ہم اعمال کے ظاہری پہلو کو تو بہت اہمیت دیتے ہیں مگر باطن میں بہتے ہو ئے سمندر میں سے ایک قطرہ آب بھی نہیں پیتے ۔ آسمان ِعلم و آگاہی کے خورشید ِمنفرد اور تسخیر کائنات کے فارمولوں کے ماہر حضرت شیخ عبدلقادر جیلانی ؒ فرماتے ہیں۔۔

’اے منافقو! کلام نبوت سنو ۔ 

آخرت کو دنیا کے عوض فروخت کر نے والو !

حق کو مخلوق کے عوض  بیچنےوالو!

با قی کو فنا کے بدلے کا روبار کر نے والو! 

تمہارا بیو پار سراسر خسار ےکا سودا ہے ، تمہار اسر ما یہ تمہیں بر بادی کے گڑھے میں دھکیل رہا ہے ۔ افسوس تم پر ۔ تم اللہ کے غضب کا ہدف بن رہے ہو ۔


Awaz E Dost

خواجہ شمس الدین عظیمی

اللہ کےکرم،سیدناحضورعلیہ الصلواۃوالسلام کی رحمت اورحضورقلندربابااولیاءکی نسبت سےعظیمی صاحب ۲۸۷ سےزائدموضوعات پرطبع آزمائی کرچکےہیں ۔ ہرعنوان اس بات کی تشریح ہےکہ انسان اورحیوانات میں فرق یہ ہےکہ انسان اطلاعات (خیالات) اور مصدر اطلاعات سے وقوف حاصل کرسکتاہےجبکہ حیوانات یاکائنات میں موجوددوسری کوئی مخلوقات علم تک رسائی حاصل نہیں کرسکتی ہے۔کتاب آوازدوست،ماہانہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی صفحات میں شامل کالم آوازدوست ( دسمبر ۱۹۷۸ءتادسمبر ۱۹۸۹ء ) میں سےمنتخب شدہ کالمزکامجموعہ ہے

انتساب
ان روشن ضمیر دوستوں کے نام جنہوں نے میری آواز پر روحانی مشن کے لئے خود کو وقف کردیا۔