Topics

غلام قومیں


اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جو قومیں اپنی حالت نہیں بدلنا چاہتیں ، اللہ تعالیٰ ان کی حالت میں کو ئی تبدیلی پیدا نہیں کر تے ۔ ہم نے من حیث القوم اللہ کے بنا ئے ہو ئے قوانین سے نظر ہٹا لی ہے۔ اور اپنے آپ کوعذاب و ثواب کے چکر میں محدود کر لیا ہے اس قدر محدود کر لیا ہے کہ تخلیقی فا رمولوں سے ہم بالکل بےبہرہ ہو گئے ہیں ۔ قرآن ہما را ہے، اللہ ہمارا ہے ،اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرما تے ہیں کہ ہم نے زمین آسمان اور اس کے اندر جو کچھ ہے سب کا سب تمہارے تا بع فر مان کر دیا ہے۔تمہارے لئے سورج کو مسخر کردیا ہے، تمہارےلئے چاند کو مسخر کردیا ہے، تمہارے لئے ستاروں کو مسخر کر دیا ہےاور  ہم ہیں کہ ہم نے کبھی اس تسخیری عمل کو کبھی آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا ۔قرآن ہمارا ہے اور قرآن واشگاف الفاظ میں کہتا ہے کہ لوہے میں انسانوں کے لئے بے شمار فا ئدے محفوظ ہیں ۔ظاہر ہے کہ قرآن پاک یہ کہہ رہا ہے کہ یہ فا ئدے جو اللہ تعالیٰ نے لو ہے کے اندر محفوظ کر دیئے ہیں انہیں تلاش کرو اور جب تم ان فا ئدوں کو تلاش کر لو گے تو ان سے اللہ کی مخلوق کو فا ئدہ پہنچے گا اور اللہ کی مخلوق میں تمہاری عزت و تو قیر ہو گی ۔اللہ کا قانون اپنی جگہ بر حق ہے جن لوگوں نے لوہے کی صلا حیت کو تلاش کیا وہ لوگ قومی اعتبار سے عز ت دار ہو گئے اور ہم نے قرآن پاک کی تعلیمات کو نظر انداز کیا ہم ذلیل و خوار ہو گئے ۔نماز ، رو زہ ، حج ، زکوٰۃ اپنی جگہ اہم ہیں ، فر ض ہیں ، ضروری ہیں ۔ اس لئے کہ ان ارکان کی ادائیگی سے رو ح کو تقویت ملتی ہے رو حانی صلا حیتیں متحرک اور بیدار ہو جا تی ہیں ۔لیکن یہاں معاملہ بالکل الٹا اور بر عکس ہے کہ یہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ رُوح کی صلا حیتیں ہمارے اندر موجود بھی ہیں یا نہیں ہیں ہم عمل تو کر تے ہیں عمل کی حقیقت کی طر ف متوجہ نہیں ہو تے ۔ جب کو ئی بندہ جس کو اللہ تعالیٰ نے علم الیقین کی دولت سے نوازا ہے قر آن پاک میں تفکر کر تا ہے تو اس کے سامنے قوموں کے عروج و زوال کی تا ریخ آجا تی ہے اور وہ اس بات کا مشاہدہ کر لیتاہے کہ قوموں کا عروج و زوال اس بات پر منحصر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی فر ما ئی ہوئی باتوں پر جن قوموں نے تفکر کیا وہ سر فراز ہو ئیں اور جن قوموں نے تفکر کو رد کیا وہ قومیں غلام بن گئیں بڑی ستم ظر یفی ہے کہ ہم جب یہ دیکھتے ہیں کہ موجود سائنس کی تر قی میں وہ تمام فا رمولے کام کر رہے ہیں جو ہمارے اسلاف نے چھوڑے ہیں اور جو فی الواقع ہمارا ورثہ تھے لیکن چو نکہ ہم نے اس ورثے کو کو ئی اہمیت نہیں دی اس لئے دو سرے لوگوں نے اس سے فا ئدہ اٹھا یا اور ہم ایک پس ماندہ اور بھکاری قوم بن گئے ۔


Awaz E Dost

خواجہ شمس الدین عظیمی

اللہ کےکرم،سیدناحضورعلیہ الصلواۃوالسلام کی رحمت اورحضورقلندربابااولیاءکی نسبت سےعظیمی صاحب ۲۸۷ سےزائدموضوعات پرطبع آزمائی کرچکےہیں ۔ ہرعنوان اس بات کی تشریح ہےکہ انسان اورحیوانات میں فرق یہ ہےکہ انسان اطلاعات (خیالات) اور مصدر اطلاعات سے وقوف حاصل کرسکتاہےجبکہ حیوانات یاکائنات میں موجوددوسری کوئی مخلوقات علم تک رسائی حاصل نہیں کرسکتی ہے۔کتاب آوازدوست،ماہانہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی صفحات میں شامل کالم آوازدوست ( دسمبر ۱۹۷۸ءتادسمبر ۱۹۸۹ء ) میں سےمنتخب شدہ کالمزکامجموعہ ہے

انتساب
ان روشن ضمیر دوستوں کے نام جنہوں نے میری آواز پر روحانی مشن کے لئے خود کو وقف کردیا۔