Topics

وراثت


قانون قدرت کی رو ح سے ہر شخص کا ایک تشخص ہے ۔ خواہ ہم اسے غیر مر ئی سمجھیں کو ئی اہمیت نہ دیں ۔
اس دنیا میں انسان کی خواہشات اور تمنا ئیں اس کے اعمال و افعال کا محوربنتی ہیں اور عموماً یہ اس کے گو شت پو ست کے جسم تک محدود رہتی ہیں ۔ قانون کے تحت یہ خواہشات اور تمنا ئیں بھی تشخص کی حامل ہیں ۔ دولت ، عزت اورو قا رکی خوا ہش بھی ایک تشخص ہے ۔شہر ت ، نا موری اور با لا دستی کی آرزوبھی تشخص رکھتی ہے ۔ صلہ اور معا و ضہ کی تمنا بھی بے تشخص نہیں ۔ واضح رہے کہ تقاضوں کی تکمیل کو اپنا نصب العین بنا لیتا ہے تو درحقیقت وہ اس کے تشخص کو اپنے اوپر مسلط کر لیتا ہے ۔ اگر انسان لا مطمحِ نظر ذاتی مفاد ہے تو وہ جسم خاکی میں مقید ہو جا تا ہے ۔ جہاں تنگی ہے ، گھٹن ہے ، اندھیرا ہے ، وہ اس تشخص کے طول و عرض میں بند رہتا ہے ۔با ہر نہیں نکل سکتا ۔ تیرہ و تا ریک قید خانہ میں بند قیدی کی طر ح اس کا رابطہ وسیع و عریض رنگین دنیا سے با قی نہیں رہتا ۔
فعل و عمل میں اپنی ذات کو اولیت دینے سے جو خول وجود میں آتا ہے وہ انسان کا رشتہ لا زمانیت اور لا مکا نیت سے منقطع کر دیتا ہے ۔وہ ایک محدود دائرے کے اندر سو چتا ، سمجھتا اور محسوس کر تا ہے ۔اس کی مثال ریشم کے کیڑے سے دی جا سکتی ہے ۔جس کا دائرہ کار ریشم کے خول تک محدود رہتا ہے اور وہ بیرونی دنیا سے لا تعلق ریشم کے  تارو پود کو مستحکم کر نے میں مصروف رہتا ہے ۔یہاں تک کہ اس کا نحیف و ناتوان جسم ساتھ چھوڑ دیتا ہے۔
انبیا ء اکرام نے اس بات کو سمجھا کہ یہ کائنات ایک ما وراء الماورا اور لا محدود تشخص کی بنا پر قائم ہے ۔ انہوں نے اپنے اعمال و افعال کا مر کز و منتہااس ذات کو بنا لیا اور اپنی ذا ت سے دست بردار ہو کر خود کو اس لا محدُود ہستی کے حوالے کر دیا ۔ انہوں نے ہر چیز کو اس ذات عظیم کے واسطے(REFERNCE) سے پہچا نا ، خود کو درمیان سے ہٹا یا ۔
نتیجہ میں اس کی ہستی اور اس کے ارادے کی نفی ہو گئی ۔اور وہ خالق اکبر کے مظہر بن گئے ۔جب مٹی کا پتلا اور خوا ہشات کا خول محلِ توجہ نہیں رہا تو پتلے کے اندر موجود ورُوح الٰہی آشکار ہو ئی اور نظر اس کے جلال و جمال سے خیرہ ہو گئی ۔خفی جلی ہو گیا اور غیب شہود بن گیا ۔ محدُودیت لا محدُودیت سے مغلوب ہو گئی اور خوف حزن کی جگہ خوشی، سر شاری اور اطمینان قلب نے لے لی ۔
صاحبِ مقام محمودِ نبی آخر زماں علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد ایسے قدسی نفس حضرات ہر زمانے میں موجود رہے جنہوں نے عشق نبی ؐ میں اپنی ہستیوں کی نفی کی اور اطا عت رسول میں خود کو مٹا دیا ۔ا ن حضرات پر مقام نبی ؐ منکشف ہوا اور پھر ذات اکبر سے تعارف حاصل ہوا ۔
جب یہ حضرات مخلوق خدا میں حا ضر ہو ئے تو لوگ ان کی جا نب پر وانہ وار کھنچے حالانکہ ان کے پاس نہ مال وز ر تھا اور نہ کو ئی تر غیب کا ذریعہ۔ ان حضرات نے بے صلہ اور بے غر ض جس طر ح منا سب سمجھا خلقِ خدا کی خدمت کی اور ان کے سامنے حق کی شمع بن کر فر وزاں رہے۔
 کتنی عجیب با ت ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے ساری زندگی اپنی خواہشات کی تکمیل کے لئے سامان دنیا اپنے گرد اکٹھا کیا چند روز اُسے سینے سے لگا نے کے بعد دوسرے لو گوں کے لیے وراثت میں چھو ڑ گئے۔ ان کے مر نے کے بعد لوگوں نے ان کے نام بھی فراموش کر دئیے ۔
دو سری طر ف وہ پا کیزہ نفس لوگ ہیں جن کے ذکر پر آج بھی پیشانیاں عقیدت و محبت کے جذبات سے جھک جاتی ہیں ۔ جب تک یہ لوگ عوام میں موجود تھے ، پر یشان قلوب اور سکون کے طلب گار ان کی خدمت میں حا ضر ہو تے اور جب پِس پر دہ چلے گئے تب بھی ان کا تشخص لوگوں کے سامنے موجود رہا ۔ اس لئے کہ انہوں نے ذاتی اغراض و مقاصد اور خود پسندی کو با لا ئے طاق رکھ دیا ۔ ما یا جال ا ن کو اپنی گر فت میں نہیں لے سکا ۔ان سعید روحوں نے یہ راز جان لیا تھا کہ خود سے گزرے بغیر خدا نہیں مل سکتا ۔


Awaz E Dost

خواجہ شمس الدین عظیمی

اللہ کےکرم،سیدناحضورعلیہ الصلواۃوالسلام کی رحمت اورحضورقلندربابااولیاءکی نسبت سےعظیمی صاحب ۲۸۷ سےزائدموضوعات پرطبع آزمائی کرچکےہیں ۔ ہرعنوان اس بات کی تشریح ہےکہ انسان اورحیوانات میں فرق یہ ہےکہ انسان اطلاعات (خیالات) اور مصدر اطلاعات سے وقوف حاصل کرسکتاہےجبکہ حیوانات یاکائنات میں موجوددوسری کوئی مخلوقات علم تک رسائی حاصل نہیں کرسکتی ہے۔کتاب آوازدوست،ماہانہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی صفحات میں شامل کالم آوازدوست ( دسمبر ۱۹۷۸ءتادسمبر ۱۹۸۹ء ) میں سےمنتخب شدہ کالمزکامجموعہ ہے

انتساب
ان روشن ضمیر دوستوں کے نام جنہوں نے میری آواز پر روحانی مشن کے لئے خود کو وقف کردیا۔