Topics

آدم و حوا

خدا جب سورج کی شعاعوں کے ڈول سمندر میں ڈالتا ہے تو سورج پا نی کے ذرات سے ان بھرے ہو ئے ڈولوں کو فضا ئے بسیط میں بکھیر دیتا ہے ،وہاں ایک پرو سیس کے تحت پا نی کے ذرات بادل بن کر زمین پر بر ستے ہیں اور اس طر ح پو ری زمین سیراب ہو تی رہتی ہے ۔آدم کو جب زمین پر پھینکا گیا تو اس نے شکوہ کیا کہ میں اپنی غذائی ضرورتیں کہاں سے پو ری کر وں گا ۔اللہ نے کہا ،زمین کو ہم نے تمہارے لئے وسائل کا ذخیرہ بنا دیا ہے ۔زمین کی کوکھ کھولو ۔تمہیں تمہاری ضروریا ت کی ساری اشیاء فراہم کر دی جا ئیں گی ۔ آدم نے اپنے رب کی فضل سے زمین کو کرید ا اس میں سے ضرورت کی تمام چیزیں اسے میسر آگئیں ۔کلیہ یہ ہے کہ جو شخص جیسی محنت کر تا ہے ،ویسا ہی پھل اسے مل جا تا ہے۔ آدم اور اس کی زوجہ حوا جنت میں عیش و عشرت کی زندگی بسر کر رہے تھے لیکن یکسانیت سے گھبرا کر وہ ایسی غلطی کر بیٹھے جس کی پاداش میں جنت نے انہیں رد کر دیا ۔ بلا شبہ جنت ایک مخصوص کردار کا گنجینہ ہے اور جب اس مخصوص کر دار میں ٹوٹ پھو ٹ واقع ہوگئی تو آدم و حوا کا مسکن زمین بن گئی ۔

یہ دنیا دوئی کی دنیا ہے ۔دنیا کا ایک کردار بھی اس دو ئی سے آزاد نہیں ہے۔ موسم کا گرم و سرد میں تبدیل ہونا،خوشی کے اوپر غم کاسایہ اور غم کے اوپر خوشی کا غلبہ ، عزت ، لمحہ بھر بعد بے عزتی ، صحت، بیماری، محبت اورنفرت ، نفرت اور محبت ،رات کا دن سے نکلنا اور دن کا رات میں داخل ہو نا___ یہ سب دوئیاں دراصل ہر کر دار کا متضاد پہلو ہے۔ دو ئی کی دنیا میں جب تک اس تضا د کو نہیں سمجھا جا ئے گا کسی چیز کو سمجھنا ممکن نہیں ہے ۔

جب تک میں ذلت کو نہیں سمجھتا ،میرے لئے یہ سمجھنا کہ عزت کیا ہے ایک مفروضہ عمل ہے ۔اسی طر ح اگر میں نہیں جا نتا کہ مصیبت کیا ہے تو خوشی کا تذکرہ میرے لئے بےمعنی بات ہو گی ۔

جب ہم اس دو ئی کی دنیا کے بارے میں سوچتے ہیں تو ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے  کہ دو ئی کا تعلق جسم سے ہے ۔جب تک جسمانی تحریکات موجود ہیں، دو ئی بھی موجود ہے ۔خوشی غم ، بیماری صحت ،  گرمی سردی ، نفرت محبت ، خود غر ضی اور اخلاص کا تعلق جسم کے ساتھ ہے ۔جسم بھی دوئی کے اوپر قائم ہے ۔ایک مٹی کے ذرات سے بنا ہوا جسم، دو سرا جنت کی رو شنیوں سے بنا ہوا جسم۔ مٹی کے ذرات سے بناہواجسم مادی جسم ہے اور جنت کی رو شنیوں کا بنا ہوا جسم روحانی جسم ہے ۔ انسان رو حانی اور ما دی جسم کی دو ئی میں زندگی گزارتا ہے ۔جسمانی پا بند تصورات سے نجا ت پا نے کے لئے ما دی جسم سے نہیں ، جسمانی تصورات سے نجات پانا ضروری ہے ۔مادی جسم کو اس طر ح تربیت دینا ہو گی کہ وہ ان دوئیوں کو ایک ساتھ قبول کر ے ۔ خوشی اور مصیبت کی دو ئی صرف مادی جسم کی وجہ سے ہے۔ لیکن اگر آدمی کے اندر قلندرشعور متحرک ہو جا ئے تو تمام دوئیاں موجود رہنے کے باوجود بے معنی ہوجاتیں ہیں ۔ اور کبھی عارضی طورپر معدوم بھی ہو جا تی ہیں ۔

زندگی گزارنے کی ایک طر ز یہ ہے کہ آدم زاد ہمہ وقت ،ہرآن ہر لمحہ پا بند حواس کے ساتھ زندگی گزارتا ہے ۔زندگی گزارنے کی دو سری طر ز یہ ہے کہ آدم زاد پابند حواس کے ساتھ بھی آزاد زندگی گزارتا ہے ۔حزن و ملال کے تا ثرات اسے متا ثر نہیں کر تے ۔وہ خوش بھی نہیں رہتا کہ خوشی کے ساتھ دوسرا رخ غم چپکا ہوا ہے ۔زمین کے اوپر وسائل کی چکا چو ند اس کی آنکھوں کو خیرہ نہیں کر تی کہ زمین سے دور ،بہت دور اعلیٰ زمین ،جنت اس کی نگا ہوں کے سامنے ہو تی ہے ۔ جس طر ح ما دیت میں قید وہ یہاں رو ٹی کھا تا ہے، اسی طر ح ما دیت سے آزاد ہو کر جنت کے با غات سے انگور کے خوشے حاصل کر نا اس کے لئے آسانہے ۔ جب کو ئی شخص دو ئی سے واقف ہو کر خود شنا سی میں مکمل ہو جا تا ہے تو ا س کے اوپر زندگی کی ایک نئی راہ ،نئی طرز اور نیا اسلوب منکشف ہوجا تا ہے ۔ ایسے شخص کو قلندر شعور کا حامل مرد آزاد کہا جا تا ہے ۔مردآزاد ہر چیز کو ایک ہی نظر سے دیکھتا ہے خواہ وہ پتھر ہو یا سونا ہو۔مردِ آزاد جب یہ جان لیتا ہے کہ میں صرف جسم نہیں ہوں تو اپنی جسمانی ضروریات کو ہی زندگی نہیں سمجھتا ۔ اس کے سامنے زندگی کا ایک اعلیٰ مقصد ہو تا ہے اوروہ ظا ہر و باطن اس بات کا مشاہدہ کر لیتا ہے کہ یہ دنیا عارضی اور ایک فکشن (FICTION)ہے۔اس  کا دل پرسکون رہتا ہے۔وہ ما دی دنیاسے متا ثر ہو کر منتشر نہیں ہوتا ۔ما دی چمک دمک سے وہ خوش تو ہو تا ہےلیکن یہ چمک دمک اسکے لئے کشش نہیں بنتی۔ 

قلندر شعور کے حامل آزاد انسان کی نظر میں خیرخواہ دوست اور دشمن، رشک و حسد کر نے والے، پاکباز اور پا پی ،بے لوث اور خود غر ض ، جا نبدار اور غیر جا نبدار سب کی حیثیت یکساں ہو جا تی ہے ۔وہ جان لیتا ہے کہ ہم صرف جاندار اشیاء ہیں اور کائنات جاندار اشیاء کے لئے ایک اسٹیج ہے۔ کا ئنات میں ہرفر د اپنا اپنا کردار ادا کر رہا ہے ۔ کائنات دراصل ایک بڑے ڈرامے کی طر ح ہے ۔ جس میں ہر فرد اپنا کردار ادا کر کے رخصت ہوجا تا ہے ۔

 کائنات ایک ہے۔ اس کا ڈرا مائی کردار مختلف ہے ۔کو ئی کردار ظلم ہے اور کو ئی کردار مظلوم ہے ۔ کسی کے سپر دامن وآشتی کا پیغام دینا اور کسی کو اس بات پر متعین کر دیا گیا ہے کہ وہ تخریب کا ری کا پر چار کر ے ۔ 

جس طر ح ایک فلم سینکڑوں ہزاروں اسکرین پر دیکھی جا سکتی ہے اسی طر ح کا ئنات کی تمثیل لوح ِمحفوظ سے ڈسپلے(DISPLAY) ہو رہی ہے ۔کائنات میں موجود ہر زمین ایک اسکرین ہے ۔قلندر شعور بیدار ہو جا تا ہے تو  ساری کائنات ایک فلم اور کائنات میں کھر بوں زمینیں اسکرین نظر آتی ہیں ۔اندر کی آنکھ گو شت پو ست کی آنکھ کو دکھا دیتی ہے کہ جو کچھ اس زمین پر ہو رہا ہے، جس طر ح اس زمین پر کھیتی با ڑی ہو رہی ہے، شادی بیاہ کی تقریب کے بعد ایک نسل سے دوسری نسل وجود میں آرہی ہے ، بالکل اسی طر ح کائنات میں موجود دوسری تمام زمینوں پر بھی نظام جاری وساری ہے ۔ 


Awaz E Dost

خواجہ شمس الدین عظیمی

اللہ کےکرم،سیدناحضورعلیہ الصلواۃوالسلام کی رحمت اورحضورقلندربابااولیاءکی نسبت سےعظیمی صاحب ۲۸۷ سےزائدموضوعات پرطبع آزمائی کرچکےہیں ۔ ہرعنوان اس بات کی تشریح ہےکہ انسان اورحیوانات میں فرق یہ ہےکہ انسان اطلاعات (خیالات) اور مصدر اطلاعات سے وقوف حاصل کرسکتاہےجبکہ حیوانات یاکائنات میں موجوددوسری کوئی مخلوقات علم تک رسائی حاصل نہیں کرسکتی ہے۔کتاب آوازدوست،ماہانہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی صفحات میں شامل کالم آوازدوست ( دسمبر ۱۹۷۸ءتادسمبر ۱۹۸۹ء ) میں سےمنتخب شدہ کالمزکامجموعہ ہے

انتساب
ان روشن ضمیر دوستوں کے نام جنہوں نے میری آواز پر روحانی مشن کے لئے خود کو وقف کردیا۔