Topics

دعا

سائنس کا یہ نظر یہ اتنا عام ہو چکا ہے کہ ابتدائی کلا سوں کے طالب علم کسی بچہ سے بھی اگر استفسار کیا جائے تو وہ بر ملاکہے گا :

ہر بات ،ہر عمل ، ہر کردار انتہا ء یہ ہے کہ ہماری آواز ہماری زبان سے نکلا ہوا ہر لفظ فضا میں لہروں کے دوش پر محوپر واز رہتا ہے ۔اگر ہم کسی طر ح آواز کے قطر کو سولہ سو قطر  (Wave Length) سے زیادہ یا چا ر سو قطر سے کم کر نے پر قادر ہو جا ئیں تو ہم ہزاروں لاکھوں سال پہلے گزرے ہو ئے اپنے اسلاف کی آوازیں سن سکتے ہیں اورا ن تک اپنی آرزو اور تمنائیں پہنچا سکتے ہیں ۔دعا بھی ایک آرزو اور تمنا ہے ۔اس کا منتہا وہ ذات اقدس و اکبر ہے جس کے احاطہ قدرت میں ہر چیز ہے وہ قادر مطلق ہے جب چا ہے جس طر ح چا ہے کا ئنات کے جاری وساری نظام میں تبدیلی کر سکتا ہے۔ اب سے چو دہ سو سال پیشتر مسلمانوں کی کردار  کی عظمت کا غلغلہ تھا ۔ دنیائے کفرواستبداد پر اسلام کے شیدائیوں کی حاکمیت قائم ہو تی چلی گئی ۔ہیبت اور جبروت کا عالم یہ تھا کہ بیت المقدس کے  محافظین نے اللہ کے پاک گھر کی کنجیاں بدست خود پیش کر دی تھیں ۔ پھر ایک ایسا دورآیا کہ سیسہ پلا ئی ہو ئی دیوار کی طر ح مضبوط قوم فر قوں میں بٹ گئی مسلمانوں کی پا کیزگی گہناگئی اور مسلمان سمٹتا چلا گیا ، اتنا سمٹا اتناکمزور ہو ا کہ اس کا شیرازہ بکھر گیا ۔ جب سے ہوش و حواس کا پہلا قدم زندگی کی منزل پر رکھا ہے ایک ہی بات کانوں سے سنی ، آنکھو ں نے دیکھی کہ مساجدمیں  سجی محفلوں میں ، منبروں پر لا کھوں کے مجمع میں دعا کی جا رہی ہے۔ یا اللہ ہمیں دشمنوں پر فتح عطا کر۔ دو سری بات جو بچپن سے سننے میں آئی وہ یہ ہے کہ اسرا ئیلی مغضوب  ہیں اور ان کی حکو مت کبھی قائم نہیں ہو گی کہ غیر المغضوب علیھم ولا الضالین کی یہی تفسیر پیش کی جا تی ہے ۔

یارو !یہ کیسا غضب ہے کہ اغیار ہمارے تشخص کوبر بریت اور ظلم و تشدد سے مسلسل پا ئمال کر رہے ہیں اور ہم روز افزون پستی کی طرف گامزن ہو کر ثم رددنہ اسفل سافلین کی زندہ تصویر  بن گئے ہیں ۔ عمل سے کو سوں دور صرف دعا پر اکتفا اور تکیہ کئے بیٹھے ہیں ۔ جس طر ح آوازیں فضا میں گشت کر تی رہتی ہیں ،دعا ؤں کے ساتھ عمل نہ ہو ، کردار نہ ہو ، اخلا ص نہ ہو تو یہ دعا ئیں بھی زمین کے کناروں سے با ہر نہیں نکلتیں ۔ اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطا بق وہ دعا ئیں مقبول با رگا ہ ہو تی ہیں جن کے ساتھ مسلسل اور پیہم عمل ہو ۔ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مقدس اور اطہر زندگی ہمارے سامنے ہے ۔ حاصل کا ئنات اللہ کے پیا رے نبی ﷺ نے محض زبانی جمع خرچ کا درس نہیں دیا مسلسل حر کت اور جد وجہد سے تعبیر زندگی کا اعلیٰ وارفع نمونہ پیش کیا ہے ۔ ہم زبانی دعویٰ تو بہت  کر تے  ہیں مگر عمل کے میدان میں ہماری حیثیت برگ و بار کی نہیں کا نٹوں کی ہے ۔ کون نہیں جا نتا جھو ٹ ، اقر بانوازی ، ذخیرہ اندوزی ، غیبت۔ آپس میں پھوٹ ڈالنا دو سروں کو کمتر جاننا زندگی کے بلند معیا ر کے فسوں میں خو د کو گر فتار کر لینا کربناک عذاب ہے ہم دوزخ کی طر ف بھا گ رہے ہیں ۔ہاتف الغیب  غیبی آوازیں دے رہا ہے کہ جدھر کا رخ ہے وہ صعوبت کی راہ ہے مگر افسوس سب کچھ جاننے اور سمجھنے کے با وجود ہم نے اپنی زندگی کو عقوبت خانہ بنا لیا ہے ۔ 

ہا دی بر حق ، سر تا ج انبیا ء ، مجسم رحمت ، محسن انسانیت ﷺ نے ایک ایسے شخص کا ذکر فر ما یا جو لمبی مسافت طے کر کے مقدس مقامات پر حاضری دیتا ہے ۔غبار میں اٹا ہوا ہے ۔ گردوآلود ہے اور اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف پھیلا کر کہتا ہے،

اے میرے رب ! اے میرے رب! 

حالانکہ اس کا کھانا حرام ہے، اس کا پینا حرام ہے، اس کا لباس حرام ہے  اور حرام ہی سے اس کے جسم کی نشو نما ہوئی ہے۔ تو ایسے شخص کی دعا بھلا کیسے قبول ہو سکتی ہے۔

آج کے معاشرے میں ہماری روزی، ہمارا رہن سہن، ہمارا معیارِ زندگی، ہمارا قول و فعل رسول اللہ  ﷺ،  کی زندگی سے کس حد تک مطابقت رکھتا ہے، یہ سب ہمارے سامنے ہے۔


Awaz E Dost

خواجہ شمس الدین عظیمی

اللہ کےکرم،سیدناحضورعلیہ الصلواۃوالسلام کی رحمت اورحضورقلندربابااولیاءکی نسبت سےعظیمی صاحب ۲۸۷ سےزائدموضوعات پرطبع آزمائی کرچکےہیں ۔ ہرعنوان اس بات کی تشریح ہےکہ انسان اورحیوانات میں فرق یہ ہےکہ انسان اطلاعات (خیالات) اور مصدر اطلاعات سے وقوف حاصل کرسکتاہےجبکہ حیوانات یاکائنات میں موجوددوسری کوئی مخلوقات علم تک رسائی حاصل نہیں کرسکتی ہے۔کتاب آوازدوست،ماہانہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی صفحات میں شامل کالم آوازدوست ( دسمبر ۱۹۷۸ءتادسمبر ۱۹۸۹ء ) میں سےمنتخب شدہ کالمزکامجموعہ ہے

انتساب
ان روشن ضمیر دوستوں کے نام جنہوں نے میری آواز پر روحانی مشن کے لئے خود کو وقف کردیا۔