Topics
شعوری آنکھ دور ِجدید دیکھتی ہے تو حیران ہو جا تی ہے۔ اسے انسانی صلا حیتوں اور اس کی اختراعات کا مظاہرہ ششد ر کر دیتا ہے ۔ زمین یا فضا اس کے دائرہَ بصارت میں آتی ہے تو ایجا دات کا لا متنا ہی سلسلہ سامنے آجا تا ہے ۔ خالق ِکا ئنات کی تخلیق کی ذیلی صنا عی اور تخلیق کے شگو فے دھر تی کے اس کونے سے اُس کونے تک نظر آتے ہیں ۔
سڑکو ں پر دوڑتی ہو ئی گا ڑیاں ، مزید تیز سفر کے لئے ریل اور فضا کا سینہ چیرتے ہو ئے ہوائی جہاز جو ہزاروں ٹن وزن لے کر مہینوں اور سالوں کا سفر گھنٹوں اور دنوں میں طے کر لیتے ہیں ۔اور جن کی رفتار آواز کی رفتار سے بھی زیادہ تیز ہے ۔مواصلا تی نظام جن کے ذریعے ایک جگہ کی آواز اور تصویر کسی قابلِ ذکر وقفہ کے ایک سرے سےدنیا کے دو سرے سرے تک پہنچ جا تی ہے ۔ حساب کے پیچیدہ مسائل کے حل کے لیے کمپیو ٹر جو کئی کئی دنوں کا حساب منٹوں میں کر دیتے ہیں۔ ایٹم کی قوت کا استعمال اور بر قی توانائی کے ذریعے رو شنی سے جگمگاتے شہر اور صنعتی ارادوں گر دش کرتے ہو ئے پہیے۔ راکٹ ، میزائیل اور ان کی تباہ کا ریاں خلا میں پہنچنے کی پے در پے کوششیں، لیزر شعاعوں کا جا دو ، بر قیات کی حیرت انگیز تر قی ، سر جری اور طب کے شعبوں میں آئے دن کی پیش رفتیں۔ یہ وہ ذیلی تخلیقات ہیں جودن کے اُجالے اور رات کے اندھیرے میں یکساں متحرک ہیں ۔ احسن خالقین کی بہترین تخلیق ، انسان رات اور دن کی مسلسل اور ان تھک محنت سے اختراعات کاایک طویل سلسلہ قائم کر نے میں کا میاب تو ہو گیا ہے لیکن اس نے ایجادات و اختراعات کے جال میں اس بات کو تلاش نہیں کیا کہ اگر چہ وہ ان اشیاء کاخالق ہے لیکن ان کے درمیان خود اس کی حیثیت کیا ہے ۔ فطرت کے قوانین کی تسخیر کا دعویٰ کر نے و الے انسان کو یہ نظرنہیں آتا کہ وہ خود اپنی بنا ئی ہو ئی اشیاء کے ہاتھوں میں کھلونا بنا ہوا ہے اور خود اپنے بنا ئے ہو ئے جال میں بے بس مکھی کی طر ح ہا تھ پیر ما ر رہا ہے ۔انسان کی پست ذہنی پر واز اس بات کو محسوس ہی نہیں کر تی اس نے جو کچھ بنا یا ہے وہ سب اس کے اندر چھپی ہو ئی صلا حیتو ں کا مظہر ہے ۔ لیکن وہ ان صلاحیتوں کو محدود رنگ وروپ دے کر خود ان کا غلام بن گیا ہے ۔ فضا کا سینہ چیرنے والے ہوائی جہاز کا خالق اپنی تخلیق کو زمین پر کھڑا بے بسی سے دیکھتا ہے ،فضا میں اچھلتا ہے تو گیند کی طر ح لڑھک کر گر پڑتا ہے ۔کمپیوٹر جیسی حیرت انگیز مشین کو وجود میں لا نے والاآدمی دو اور دو چار کے حساب میں الجھا رہتا ہے ۔ آواز کو ہزاروں میل دور پہچاننے والے آلات کے موجد کی سماعت کا یہ حا ل ہے کہ سو دو سو گز دو ر کی آواز سننے سے قاصر ہے ۔تصاویر کو ایک شہر سے دوسرے شہر بلکہ فضا سے ز مین پر منتقل کر نے والے آلات کے خالق کی بصارت اتنی کمزور ہے کہ کسی دور دراز علاقہ کی بات تو الگ وہ اپنے پیچھے دیکھنے سے معذور ہے ۔ مظاہر فطرت کی تسخیر کا دعویٰ کر نے والا آدمی آج اپنے گر یبان میں منہ ڈال کر دیکھے اور غیر جانب داری سے جا ئزہ لے تو وہ اس نتیجے پر پہنچے گا کہ فی زمانہ اس کی ذہنی پر یشانی ، اعصابی کھنچا ؤ ، بے چینی اور عدم تحفظ کا احساس اپنے عروج پر ہے ۔
جب کہ حقیقت یہ ہے کہ فاصلوں کی جکڑبندیوں میں پھنسے ہو ئے انسان کے اندر ایسی صلا حیتیں موجود ہیں کہ زمین کی طنا بیں اس کے ہا تھ میں ہیں ۔ ایک سیارے سے دو سرے سیارے ،ایک نظام ِشمسی سے دو سرے نظام ِشمسی تک کے فا صلے۔ خالق ِکا ئنات نے اس کو جو بصارت عطا کی ہے وہ مکانی اور زمانی فا صلوں سے ماورا ءہے۔ آدمی کو اس کےبنانے والے نے خلا صہ ءکا ئنات بناکر اپنی تخلیق کا اعلیٰ تر ین نمو نہ بنایا ہے لیکن انسان نے خالق کے اس عظیم انعام کی نا قدری کی ۔ اس کا کفران کیا ۔ اس نے اپنی صلا حیتوں کو پابند کیا ،لا مکانی اور لا زمانی صفات کو چھوڑ کرچھوٹی اور بہت چھوٹی ، حقیر اور بہت حقیر مادیت پر اکتفاد کیا اور ریشم کا کیڑا بن کر خود اس میں قید ہو گیا ۔کتنی مضحکہ خیز ہے یہ بات کہ خالق خود اپنی تخلیق کا محتاج ہے ۔
آسمانی صحا ئف میں بتا یا گیا ہے کہ وسائل پر حکمرانی یہ ہے کہ ارادہ کے ساتھ وسائل حر کت میں آجا تے ہیں ۔ ارادہ کیا ہے ؟ ارادہ رُوح کی لا متنا ہی تخلیقی صفات کا مظاہرہ ہے ۔
اپنے اندر روحانی صلا حیتوں کومتحرک کر نے اور ان سے کام لینے کے لئے ضروری ہے کہ ہمیں کتاب کا علم آتا ہو اور علِم کتاب کے وہ فا رمو لے ہمارے اوپر منکشف ہوں جن کے اوپر یہ ساری کا ئنات ٹھہری ہو ئی ہے۔ جب تک یہ علم حاصل نہیں ہو تا آدمی ادبار کے انبارمیں دبا رہے گا مٹی کا خول آدم زاد کا وہ ورثہ ہے جس کے دوش پر بہ حسرت و یا س ہمارے جدِ امجد آدم جنت (اعلیٰ مقام )سے اسفل( زمین) میں پھینک دیئے گئے تھے ۔
اے لوگو! دانشورو ! کچھ ہوش و خردسے کام تو لو یہ کیسی تر قی ہے کہ آدمی خود اپنی نسل کو بر باد کر نے کے لئے مسلسل کو شاں ہے اور تبا ہی کا نام اس نے تر قی ر کھ چھو ڑا ہے یہ کیسی دانشوری ہے کہ آدم زاد نے ایک ایٹم کی قیمت، لاکھوں آدمیوں سے بڑھا دی ہے اور ترقی کے خوش نما پردوں میں ذہنی سکون ، اطمینان اور تحفظ کے احساس کو چھپا دیا ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
ان روشن ضمیر دوستوں کے نام جنہوں نے میری آواز پر روحانی مشن کے لئے خود کو وقف کردیا۔