Topics

لہریں

ایک سادھو ، خواجہ غر یب نواز ؒ کی خد مت میں حا ضر ہوا ۔ سا دھو گیان دھیان سے اس مقام پر پہنچ گیا تھا جہاں گو شت پو ست کا جسم مٹی نظر آتا ہے ، ایسی مٹی جس میں خمیر تعفن بن جا تا ہے ۔ اور جب انسانی نظر میں گو شت پو ست مٹی کے ذرات میں تحلیل ہو نے لگتا ہے تو اسے آدمی کے اوپر ایک اورآدمی کا مشاہدہ ہو تا ہے۔ یہ آدمی ایسا نظر آتا ہے جیسے ٹیلی ویژ ن کی اسکرین (SCREEN)پر متحرک تصور۔ یہی وہ آدمی ہے جسے سائنس (AURA) کہتی ہے ۔ 

AURA کیا ہے ؟

ہم جب کپڑے کی ساخت کا تذکرہ کر تے ہیں توہمارے ذہن میں یہ بات آتی ہے ۔ کپڑا دھا گے کے تانے با نے سے تیار ہو تا ہے ۔اس تا نے با نے سے بنے ہو ئے کپڑے کے اوپر نقش و نگار بھی بنا ئے جا تے ہیں ،ایسے نقش و نگار جو کپڑے کے ساتھ یکجان ہو جا تے ہیں ۔ جب رو شنیوں کے تا نے با نے پر انسانی نقش و نگار بُن دئیے جاتے ہیں تو اس کا نا م AURA ہے کیوں کہ رو شنی کے اوپر وقت کی گرفت نہیں ہو تی اس لئے وہ زمان و مکان کی پا بندی سے آزاد ہو تی ہے ۔ زمان و مکان سے آزادی کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کی نظر آسمانی وسعتوں کو چھو لیتی ہے ۔پھر نظر کی گہرائی اتنی ہوجا تی ہے کہ آدمی وہ کچھ دیکھنے لگتا ہے جو گوشت پوست کی آنکھ سے نظر نہیں آتا ۔

مذہب و ملت کی تفریق کے بغیر ہر شخص اپنی اصل یعنی AURA سے وقوف حا صل کر سکتا ہے ۔ AURA کو ئی ایسی ما ورائی چیز نہیں ہے جو شعور کے دائرے میں نہ آئے ۔ رو شنیوں کے جن تا روں سے AURA بنا ہوا ہے ان تا روں کے اندر دوڑنے والی ELECTRICTY سے ہر شخص اختیار ی اور غیر اختیاری طور پر متعارف ہے اور اس ELECTRICTYکے فنکشن(FUNCTION) سے ہر آدمی متا ثر ہوتا رہتا ہے ۔ کچھ عرصہ دور رہنے کے بعد جب اپنے لخت ِجگر کو سینے سے لگا تا  ہےتو سینے کے اندر غیر مر ئی لہریں منتقل ہو تی ہیں ۔اور یہ لہریںWAVESتاربر قی نظام کے تحت  روشنی کے تا نے با نے کو اپنی گزر گاہ بنا تی ہو ئی جب دماغ میں پہنچتی ہیں توایک سرورکی سی کیفیت پیدا  ہو جا تی ہے ۔ یہ بات بھی ہمارے مشاہدے میں ہے کہ دو دل جب ایک دو سرے میں جذب ہونا چا ہتے ہیں اور جذب ہو نے میں خاندانی رسم و رواج ، اخلاقی اور معاشرتی قدریں دیوار بنتی ہیں ۔ تو ایک فر د جب دو سرے فر د کو ہا تھ لگا تا ہے تو اسے کر نٹ لگتا ہے ۔ اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطا بق میاں بیوی جب ہم لباس ہو تے ہیں تو جسم کی رو ئیں رو ئیں سے لہریں نکلتی ہیں اور یہ لہریں ایک نئی تخلیق کا پیش خیمہ ثابت ہو تی ہیں ۔

آدمی جب اپنے (ELECTRICTY)AURAسے وقوف کر لیتا ہے تو اس کی رفتار بجلی کی رفتار کے برابر ہو جا تی ہیں اور کو ئی بندہ اس رفتار سے نا صرف یہ کہ محو پرواز ہو جاتا ہے بلکہ ہزاروں لاکھوں سال پہلے یا بعد کی باتیں اس کے سامنے آجا تی ہیں ۔

سا دھو نے خواجہ غر یب نوازؒ  کی طر ف گہری نظر ڈالی اور اُس کی نیم  واآنکھیں اُن پر جم گئیں اور وہ بر ملا پکار اٹھا ۔ پر بھو ،

" دھن دھن قدرت تیری!

جے جے ایشور کی کر پا ہے ۔

اے خواجہ ! تیری آتما رو شن ہے لیکن دل میں ایک سیاہ دھبہ ہے ۔ "

حضرت خواجہ غریب نواز نے سادھوکی بات سن کر فر ما یا ۔’’تو سچ کہتا ہے۔"

سادھو یہ سن کر حیرت کے دربار میں ڈوب گیا اور کہا ۔

 ’’چا ند کی طر ح رو شن آتما پر یہ دھبہ اچھا نہیں لگتا ۔ کیا میری شکتی سے یہ دھبہ دور ہو سکتا ہے ؟ ‘‘

خواجہ غر یب نوازؒ نے جوا باً کہا ۔ ’’ہاں ،تو چا ہے تو یہ سیا ہی دھل سکتی ہے ۔"

 سا دھو کے اوپر اضطرابی کیفیت طاری ہو گئی ۔ نم آنکھوں اور کپکپاتے ہونٹوں سے کہا۔" میری زندگی آپ کی نذرہے ۔ ‘‘

خواجہ صاحب ؒنے فرمایا۔" اگر تو اللہ کے رسول محمد رسول اللہﷺ پر ایمان لے آئے تو یہ دھبہ ختم ہو جا ئیگا ۔"

سادھو کی سمجھ میں یہ با ت نہیں آئی لیکن چونکہ وہ اپنے اندر مٹی کی کثافت دھو چکا تھا ، اس لئے وہ اللہ کے دوست محمد رسول اللہ ﷺ کی رسالت پر ایمان لے آیا ۔ 

خواجہ صاحب ؒنے فر ما یا ۔’’آتما کی آنکھ سے دو بارہ دیکھ ۔ ‘‘

سادھو نے دیکھا تو رو شن روشن دل سیاہ دھبے سے پاک تھا ۔ سادھو نے خواجہ غریب نواز ؒ کے آگے ہا تھ جوڑ کر بنتی کی ۔

’’ا س انہونی بات سے سے پر دہ اٹھا ئیے ورنہ میرا دم گھٹ جا ئے گا ۔ ‘‘

خواجہ صاحب ؒنے کہا ۔’’سن ، وہ روشن آدمی جس کے دل پر تو نے سیاہ رنگ کا دھبہ دیکھا تھا تو خود تھا لیکن اتنی شکتی کے بعد بھی تجھے روحانی علم حاصل نہیں ہوا ۔ ‘‘ "رو حانی علم یہ ہے کہ آدمی کا دل آئینہ ہو تا ہے اور ہر دو سرے آدمی کے آئینے میں اسے اپنا عکس نظر آتا ہے ۔ تو نے اپنی روشن آتما میرے اندر دیکھی تو تجھے اپنا عکس نظر آیا ۔ تیرا ایمان تو حید پر نہیں تھا ، اس لئے تیرے دل پرسیاہ دھبہ تھا اور جب تو نے کلمہ پڑھ لیا، وہ سیاہ دھبہ دھل گیا اور تجھے میرے آئینے میں اپنا عکس رو شن اور منور نظر آیا ۔‘‘


Awaz E Dost

خواجہ شمس الدین عظیمی

اللہ کےکرم،سیدناحضورعلیہ الصلواۃوالسلام کی رحمت اورحضورقلندربابااولیاءکی نسبت سےعظیمی صاحب ۲۸۷ سےزائدموضوعات پرطبع آزمائی کرچکےہیں ۔ ہرعنوان اس بات کی تشریح ہےکہ انسان اورحیوانات میں فرق یہ ہےکہ انسان اطلاعات (خیالات) اور مصدر اطلاعات سے وقوف حاصل کرسکتاہےجبکہ حیوانات یاکائنات میں موجوددوسری کوئی مخلوقات علم تک رسائی حاصل نہیں کرسکتی ہے۔کتاب آوازدوست،ماہانہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی صفحات میں شامل کالم آوازدوست ( دسمبر ۱۹۷۸ءتادسمبر ۱۹۸۹ء ) میں سےمنتخب شدہ کالمزکامجموعہ ہے

انتساب
ان روشن ضمیر دوستوں کے نام جنہوں نے میری آواز پر روحانی مشن کے لئے خود کو وقف کردیا۔