Topics

ماورا ئی ڈوریاں

تصوف کی تاریخ میں یہ مسئلہ متنا زعہ فیہ رہا ہے کہ انسان کے اندر جب اس کی رو حانی قوتیں متحرک اور کا ر فر ما ہو تی ہیں تو کیسے سمجھا جا ئے کہ ان حالتوں میں حقیقت کی رنگینی ہے یا شیطان کی کار فر ما ئی ۔ مذہب میں بھی اس مسئلہ کو بڑی اہمیت حاصل ہے ۔ روحانی واردات و کیفیات اگر حقیقت پر مبنی نہ ہو تو اس بات کا گمان یقین بن جا تا ہے کہ شیطانی الہام آدم زاد کو نچلے گھڑے میں پھینک دیتا ہے۔ جہاں تک مر شدا ور گر و کی تعلیمات کا تعلق ہے اس میں یہ بات قابل اعتراض رہی ہے کہ ایک مر شد سینکڑوں یا ہزاروں میل دور بیٹھ کر مرید کی کس طرح تر بیت کر سکتا ہے۔ اور اگر وہ رو حانی طور پر تر بیت کر بھی سکتا ہے تو وہ کون سا یقینی امر ہے جس کے بارے میں کہا جا ئے کہ مر شد کی رُوح شیطانی الہام سے مُبراءہے ۔مر شد بہرحال ہماری طر ح کا ایک انسان ہے ۔ 

انسانی زندگی کے با رے میں دانشوروں کا تجز یہ ہے کہ زندگی د راصل خیالات کی ایک فلم ہے ۔اور یہ فلم دماغی اسکرین پر تسلسل اور تواتر کے ساتھ ڈسپلےDISPLAY ہو رہی ہے ۔ خیال کے بارے میں غورو فکر ہمیں اس حقیقت سے آشنا کر تاہے کہ ایک ہی خیال کو مختلف معنی پہنانے کا نام تکمیل ہے ۔جب ہم بھوک کی طر ف متوجہ ہو تے ہیں تو پیٹ بھر نے کے ایک مخصوص عمل کو اچھا قرار دیتے ہیں اور پیٹ بھر نے کے اسی عمل کو برا ئی سے منسوب کر تے ہیں ۔ 

شادی ایک عمل ہے جس کے اوپر نو عِ انسانی کی بقاء کا انحصار ہے ۔ اگر اس عمل کی انسان کے اپنے بنائے ہو ئے قاعدوں اور ضا بطوں کے ساتھ تکمیل ہو تی ہے تو یہ عمل خیر ہے اور یہی عمل متعین قاعدوں اور ضابطوں کے خلاف کیا جا ئے تو برا ئی ہے حالانکہ نتا ئج کے اعتبار سے عمل کے دونوں رخوں کا ایک ہی نتیجہ مر تب ہو تا ہے ۔

عمل کی پہچان یہ ہے کہ ایک عمل کر نے سے ضمیر خوش ہو تا ہے اس کے اندر سکون اور اطمینان کی لہریں موجزن ہو تی ہیں۔ اور عمل کی دوسری پہچان یہ ہے کہ ضمیر نہ خوش ہو تا ہے ۔اور انسان یہ عمل کر کے ندامت محسوس کر تا ہے ۔

 انسان دراصل ایک درخت ہے اور اس کی زندگی کے اعمال و کردار اس درخت کے پھل ہیں ۔ یہ بات بھی ہم سب کے سامنے ہے کہ درخت اپنی جڑ سے نہیں پھل سے پہچا نا جا تا ہے ۔ یہی صورتِ حال انسانی اعمال کی ہے ۔ صداقت کا فیصلہ اس کے ماخذسے نہیں اس کے  نتا ئج سے مر تب ہو تا ہے ۔ کسی شخص کے اندر نیکی کے تصورات یا برائی کے با رے میں کو ئی حتمی فیصلہ نہیں کیا جا سکتا ۔انسان  کا  خود کا اپنا عمل اس کا  یقین دلا سکتا ہے کہ وہ سچا ہے یا جھوٹا ہے۔کسی عمل کو پرکھنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ یہ دیکھا جا ئے کہ یہ عمل معاشرے پر کس طر ح اثر انداز ہو رہا ہے ۔اگر اس عمل میں سچا ئی، گہرائی اور فطرت موجود ہے تو یہ عمل صیحح اور سچا ہے۔ 

جن لوگوں کے جسمانی تقاضے رو حانی کیفیات سے ہم رشتہ رہتے ہیںان کا طر ز تکلم اور طر زتعلیم اس بات کی نشاندہی کر تے ہیں کہ یہ بندہ جسم و جان کے رشتے سے واقف ہے ۔ رُوح اور جسم  کےمشترکنظام میں جب حر کت پیدا ہوجا تی ہے توانسان  خود کو خو شی اور ایثار کے جذبے میں ڈو با ہوا محسوس کر تا ہے ۔وہ نو ع انسانی کے ہر فرد کو اور کائنات کے تمام افراد کو اس نظر سے دیکھتا ہے جس نظر سے ایک ماں اپنے بچے کو دیکھتی ہے اس کی سرشت میں یہ بات راسخ ہوجا تی ہے کہ میرا رشتہ کا ئنا ت  کے  تمام افراد سے قائم ہے ۔جس طر ح کا ئنات میرے اندر بسی ہو ئی ہے اسی طر ح کائنات کاہر فرد میرے دل کے آئینے پر اپنا عکس ڈال رہا ہے۔ وہ جب چا ہے اپنے اندر اس عکس سے پیغام و سلام کر سکتا ہے ۔

شیطانی تفکر، ابلیسی طر ز فکر اور بڑا ئی کے تشخص ہستی کی سوچ یہ ہے کہ وہ اپنا عرفان  اس طر ح رکھتی ہے کہ اس جیسا کو ئی نہیں ہے ۔کبرو نخوت اس  کی گر دن کے پٹھوں کو تشخ میں مبتلا کر دیتی ہے ۔ چہرہ  پر ملا مت ، صبا حت اور معصومیت کی جگہ بد صورتی اور خشکی اپناتسلط جما لیتی ہے ۔ 

ایک اپنے  ہی جیسے انسان کے پاس بیٹھنے سے سرو ر ملتا ہے اور اپنے ہی جیسے دو سرے انسان کی قربت تکدر اور بھاری پن میں مبتلا کر دیتی ہے ۔ہر انسان پیدا ئش سے لیکر بڑھا پے تک تجر با ت کی ایک دستا ویز ہے۔ دستا ویز میں بھلا ئی سرا ئیت کر گئی  ہے تو دستا ویز قیمتی اور فا ئدہ مند ہے ۔ رگ وپے میں اگر بڑا ئی رچ بس گئی ہے تو دستا ویز بھیانک اور بھو نڈی ہے ۔بہترین دستا ویز انسان کے لئے خود آگہی کا ذریعہ ہے۔ خود آگہی ایک لا متنا ہی راستہ ہے جس راستے پر چل کر کو ئی انسان ایسا درخت بن جا تا ہے جس کے پھل میٹھے اور شیر یں ہو تے ہیں ۔ ایک عالم اس سے سیراب ہو تا ہے ۔اس کی ٹھنڈی چھا ؤں سے سکون اٹھا تا ہے ۔بھو نڈی دستا ویزانسان کے اندر بے حسی اور خو د غر ضی اور لا لچ پیدا کر تی ہے۔ یہ انسا ن کانٹوں بھرا  ایسا درخت ہو تا ہے جس کے نیچے ایک دو گھڑی بھی کو ئی بیٹھنا پسند نہیں کر تا۔

اگر انسان کے اندر خود سکون ہے وہ دو سروں کے لئے طما نیتِ قلب کا ذریعہ ہے۔ اس کا سایہ ٹھنڈا   اور عطر بیز ہے ،۔ اس کی روحانی کیفیات حقیقی ہیںاور اگر انسان خود سکو ن سے دُور ہے،اس کے اوپر غم کے بادل چھا ئے رہتےہیں۔وہ خوف اور ڈر کے خشک اور بے آب و گیاہ  پہا ڑوں کے دامن  میں کر اہ رہا ہے۔ یہ کیفیت شیطانی الہا مہے اور اس کی ساری زندگی دھو کا ہے ۔

زندگی کی اچھی دستاویز رکھنے والا انسان خدا کے ساتھ قریبی تعلق رکھتا ہے۔ اور خدا کی قربت سے لطف اٹھاتا ہے۔ خدا کا ملاپ اُسے بے طلب اور توقع ملتا ہے ۔وہ زندگی کے ہر سانس میں خدا سے قربت محسوس کرتا ہے ۔ خدا کو اپنے اند جلو ہ گر دیکھتا ہے، جو خدا کہتا ہے وہ سنتا ہے اور جو خو د کہتاہے خدا اسے خود قبول کر لیتا ہے۔ خداسے ہم کلامی میں زندگی کے ماہ و سال،مفرو ضہ حواس اور عادات و اطوار اس سے عارضی طور پر محو ہو جا تے ہیں ۔پھر اس پر زندگی کے وہ راز منکشف ہو تے ہیں  جو عالمین کو معلوم نہیں ہو تے۔ اس احساس کی بدو لت انسان اپنی اصل کو پہچان لیتا ہےاور یہ جان لیتا ہے کہ اس کا جینا مر نا ایک عالم سے دو سرے عالم میں زندگی گزارنے میں کیا اسرار ہیں ۔ایسا بندہ ہر آن اور ہر لمحہ خداکے وجود کو اپنے اندر محسوس کر تا ہے ۔ جسمانی طور پر یہ بندہ عام انسانوں کی طرح ہو تا ہے لیکن اس کے اندر واحد نقطہَ الٰہی تجلی سے روشن اور چارجCHARGE ہو تا رہتا ہے یہی وہ نقطہ ہے جس نقطہ کے ساتھ ساری کا ئنات لہروں کی ما ورا ئی ڈوریوں میں بند ھی ہو ئی ہیں۔ 


Awaz E Dost

خواجہ شمس الدین عظیمی

اللہ کےکرم،سیدناحضورعلیہ الصلواۃوالسلام کی رحمت اورحضورقلندربابااولیاءکی نسبت سےعظیمی صاحب ۲۸۷ سےزائدموضوعات پرطبع آزمائی کرچکےہیں ۔ ہرعنوان اس بات کی تشریح ہےکہ انسان اورحیوانات میں فرق یہ ہےکہ انسان اطلاعات (خیالات) اور مصدر اطلاعات سے وقوف حاصل کرسکتاہےجبکہ حیوانات یاکائنات میں موجوددوسری کوئی مخلوقات علم تک رسائی حاصل نہیں کرسکتی ہے۔کتاب آوازدوست،ماہانہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی صفحات میں شامل کالم آوازدوست ( دسمبر ۱۹۷۸ءتادسمبر ۱۹۸۹ء ) میں سےمنتخب شدہ کالمزکامجموعہ ہے

انتساب
ان روشن ضمیر دوستوں کے نام جنہوں نے میری آواز پر روحانی مشن کے لئے خود کو وقف کردیا۔