Topics
خالقِ کا ئنات نے کہا ۔’’میں زمین پر اپنا نا ئب بنا نے والا ہوں ۔ ‘‘
اللہ تعالیٰ کے حضور فر شتوں نے دست بستہ اپنی را ئے کا اظہا ریوں کیا ۔ ’’یہ بندہ بشر زمین پر خون خرابے کی ایک علامت بن جائے گا ۔‘‘
اللہ تعا لیٰ نے فر شتوں کی با ت سن کر یہ نہیں فر ما یا کہ یہ بندہ زمین پر فساد نہیں پھیلا ئے گا ۔ ارشاد ہوا ۔"میں جو جا نتا ہوں وہ تم نہیں جا نتے۔" اور آدم کو اپنی صفا ت کا علم سکھا دیا اور اپنے اس شا ہکار کو پیش کر کے فر شتوں سے کہا ۔’’بیان کرو ،تم اس کے مقابلے میں کتنا علم رکھتے ہو ۔‘‘
فر شتے عظمت و جلال سے لرزکر پکار اٹھے ۔’’ہم تو اتنا ہی جا نتے ہیں جتنا علم آپ نے ہمیں سکھا دیا ہے بیشک آپ علیم اور حکیم ہیں۔۔۔! ‘‘
فرشتوں کے مطا بق آدم فسادی اور فتنا انگیز ہے لیکن اگر اسے علم الا سماء حاصل ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کا نا ئب ہے ۔ باالفاظ دیگر اگر آدم زاد اللہ کا نا ئب نہیں ہے تو یہ جیتا جا گتا شر و فساد ہے ۔ شر اور فساد کا قدرتی نتیجہ اللہ سے دوری ہے اور اللہ سے دو ری بندے کو خوف اور ملال میں مبتلا کر دیتی ہے ۔ خوف زدہ انسان ہمیشہ اس بات کی کوشش کر تا ہے کہ وہ دوسروں کے مقابلے میں خود کو زیادہ با شعور ،زیادہ عقلمند اور زیادہ طا قت ور ثابت کر ے ۔ دو ہزار سال کے طو یل عرصے میں خوف کا یہ جذبہ بتدریج بڑھتے بڑھتے ایک ایسا پہاڑ بن گیا ہے کہ اس کی وسعت کے سامنے زمین کی اپنی کو ئی حیثیت با قی نہیں رہی ۔ خوف سے نجات پا نے کے لئے قوموں نے خوداپنی نوع کو بر باد کر نے کے لئے ایسی ایسی اختراعات کیں کہ ان سے زمین کا کلیجہ منہ کو آتا ہے اور پھر اس زبوں کاری کا نام تر قی رکھ کر ساری انسانی کو اضطراب اور بے چینی میں مبتلا کر دیا ۔ آدمی نے خود کو بر تر ثابت کر نے کے لئے ایسے ایسے ہتھیار تیار کئے کہ دنیا چشم زدن میں بھک سے اڑ جا ئے گی ۔ نو ع انسانی کے ان دانشوروں نے جو بلا شبہ اللہ کے نا ئب نہیں ہیں نت نئے مہلک ہتھیا روں کی ایجاد سے اپنی پیشانیوں کو داغ دار بنا دیا ہے ۔ تر قی یا فتہ قوم کے با شعور افراد کی رپو رٹ سے پتا چلتا ہے کہ اس وقت دنیا میں چا لیس ہزارایٹم بم موجود ہیں ۔دیگر روا یتی اسلحوں کا تو کو ئی شمارو قطار ہی نہیں۔ یہ تر قی کس لئے ہو رہی ہے ،کس کے خلا ف یہ ہتھیار بنا ئے جا رہے ہیں ،ان خوفناک ہتھیاروں کے استعمال سے کون تبا ہ ہو گا ،کیا یہ خود اپنے گھر کو آگ لگا نے کے مترادف نہیں ہے ؟
زمین اللہ کی ملکیت ہے ، زمین انسانوں کی فلا ح و بہبود کاایک گہوارہ ہے، زمین ہماری جنم بھو می ہے ، زمین وہ ہے جس کی کوکھ سے ہمارے لئے قدرت وسائل پیدا کر تی ہے ۔یہ زمین ہی ہے جس کے اوپر لہلہاتے با غ ہمارے لیے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے دستر خوان بن گئے ہیں ۔ہا ئے افسوس !جس کوکھ میں ہم پر ورش پا کر جوان ہو ئے ہیں، ہم تر قی کے نام پر اسی کوکھ کو اجا ڑ دینا چا ہتے ہیں! یہ کیسی تر قی ہے کہ جس سے رنگ رنگ منا ظر ، سردوسمن ، کو ہ دمن ، لا لہ و صحرا راکھ کا ڈھیر بن جا ئیں گے! یہ تر قی نہیں تنزل ہے ، ابتلا ہے ،خوف ہے ۔ اس بات کا خوف کہ ہماری ہی برادری ہمیں تبا ہ کر دے گی اور اس تبا ہی سے بچنے کا طر یقہ یہ ہے کہ ایسی کو ئی طا قت ہمارے پاس ہو کہ برادری کا دو سرا گر وہ ہمیں تبا ہ نہ کر سکے-
لیکن قانون اپنی جگہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ جب کوئی چیز وجود میں آجا تی ہے ،اس کا استعمال لا زمی ہو جا تاہے ۔ یہ جو چا لیس ہزار ایٹم بم اور نہیں معلوم کون کو ن سے بم وجود میں آچکے ہیں ایک روز ضرور پھٹیں گے اور دنیا تر قی کے جگمگاتے دھو کے سے آزاد ہو گی تو زمین پر نہ شجر ہو گا ، نہ حجر ہو گا اور نہ ہی خوف زدہ انسانوں کی تر قی کا کو ئی ثمر ہو گا ۔
خوف زدہ زندگی سے با ہر آجا ئیے۔ پھر یہ بر با دی کا سامان مہیا کر نے کی ضرو رت نہیں رہے گی اور زمین کی آغوش بھی ویران نہیں ہوگی جس کا ایک ایک ذرہ ہمارے لئے حیات ہے ۔
ارشاد با ری تعا لیٰ ہے ۔'' اللہ کے دو ستوں کو خوف ہو تا ہے اور نہ غم ۔''
خوف اور غم کا ہو نا دوزخ ہے اور اس سے نجات پا لینا جنت ہے۔
نئی نسل کے جن پا کیزہ نفس جوانوں نے رمضان المبا رک کے احترام میں رو زے رکھے اور مساجد میں حضور قلب سے عبا دت کی، ان کے اوپر اللہ کی رحمت عام ہوئی اور وہ رو حانی فیض سے مستفیض ہو ئے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’رو زے کی جزا میں خود ہوں ۔‘‘
ایسے مقبول با ر گا ہ ، فیض یا فتہ تمام حضرات کی خد مت میں یہ فقیر مبا رک با د پیش کر تا ہے ۔
خوب صورت خوبصورت عید کا رڈوں کے ذریعے محبت کر نے والے خواتین و حضرات نے جس طر ح اظہارِ عقیدت کیا ہے اس کے لئے میں انتہائی شکر گزار ہوں ۔
اللہ تعا لیٰ ہم سب کو رسول اللہﷺ کے مشن کو عام کر نے کے لئے آپس میں متحد رکھ کر اور شیطانی طر ز فکر ’’تفر قہ ‘‘ سے ہماری حفا ظت فر ما ئے ، آمین !
خواجہ شمس الدین عظیمی
ان روشن ضمیر دوستوں کے نام جنہوں نے میری آواز پر روحانی مشن کے لئے خود کو وقف کردیا۔